Friday 6 November 2020

توہین مذہب ۔۔ بین المذاہب مکالمے کی ضرورت

0 comments
دنیا میں یہ اصول مسلمہ ہے کہ درخت کی شناخت اور قدر اس کے پھل سے ہوتی ہے۔ مغرب میں سائنسی ترقی اور دنیا میں برتری حاصل ہونے کے بعد اسی اصول کو ذہن میں رکھ کر پیغمبر اسلام کے متعلق لوگوں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے۔ مغرب کے پاس نبی کریم ﷺ کی شناخت کا جو معیار قائم ہوا وہ آج کے پستی اور ذلت کی گہرایوں میں ڈوبے ہوئے مسلمان ہیں جن کی جہالت، علمی اور عملی میدان میں منفی اپروچ اور غیر منطقی رویے سے مغرب نے ان کے پیغمبر ﷺ کے بارے اپنا نظریہ قائم کر لیا۔ لیکن اس دوران اس بات کو مد نظر نہ رکھا کہ درست نظریے کا غلط اطلاق ہمیشہ غلط فہمی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پھل اپنے درخت کی پہچان ہوتا ہے لیکن گلے سڑے پھل سے درخت کے بارے نظریہ قائم کرنا دانائی اور حکمت کے کسی تقاضے کو پورا نہیں کرتا۔ مغربی محققین کے پاس اسلام کے بارے ان کا اپناکوئی پرائمری نوعیت کا سورس آف انفارمیشن نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ کے بارے جو بھی معلومات ہیں وہ مسلمان مورخین موحدثین کی جمع کردہ ہیں۔جنہیں پڑھنے کے بعد مغرب میں دو طرح کے رویے ڈویلپ ہوئے۔ ایک وہ لوگ جنھوں نے تعصب کی عینک اتار کر دستیاب معلومات کی چھان بین کی اور سچائی کو تلاش کر لیا اور اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکے بارے مثبت رویہ اپنایا۔دوسرا وہ جس نے اپنی سطحی نوعیت کو تحقیق کو بنیاد بنا کر مسلمان مورخین اور شارحین کی کتب سے ان معلومات کو اکٹھا کیا جن سے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکے بارے منفی رویے کو فروغ ملتا ہو ۔ برحال ان دونوں رویوں کو جو معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے وہ مسلمانوں ہی کی کتب ہیں ۔ کئی صدیوں سے مسلمانوں نے خود کو ماضی کے قید خانے میں پابند سلاسل کر رکھا ہے ۔ وہ اپنے شاندار ماضی کے قصوں میں لذت محسوس کرتے ہیں لیکن اپنے مایوس کن حال اور عبرت ناک مستقبل کے بارے ہرگز نہ فکر مند ہیں اور نہ اس میں بہتری کے لیے کوشاں ہیں ۔ماضی سے اس فریب پہ مبنی تعلق کی بنا پر وہ ماضی میں لکھی گئی کتب پہ غیر متذلزل ایمان رکھتے ہیں ۔ ہم نے ان کتب کی بنا پہ خود کو سینکڑوں فرقوں میں بانٹ لیا لیکن ان کتب سے ان باتوں کے بارے کوئی ٹھوس اور واضح موقف قائم نہیں کر سکے جن سےاہل مغرب کو وہ مواد میسر آتا ہے جس کو گستاخی پہ محمول کیا جاتا ہے۔کیا یہ گستاخی اسی صورت میں گستاخی کہلائے گی جب وہ کسی غیر مسلم کی قلم سے نکل کر چھپے؟ اہل مغرب یقینا موجودہ دور میں بہتر سیاسی ، معاشی اور عدالتی نظام کے باعث دنیا کی قیادت کر رہے ہیں ۔ لاء آف ٹارٹ (Law of Tort)کے نفاذ کے باعث کسی عام آدمی کی معمولی سی دل آزاری کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا اور اسے قابل سزا گردانا جاتا ہے۔ پھر پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے ایسا رویہ کیوں دیکھنے کو آتا ہے؟ اس کے پیچھے بیشمار عوامل کارفرما ہیں ۔ جن میں مسلمانوں کے زمانہ عروج میں ہونے والی صلیبی جنگوں کی یاداشت بہت اہم ہے۔ اہل مغرب کی اکثریت اسے قصہ ِ پارینہ سمجھ کر آگے بڑھ رہی ہے لیکن کچھ عناصر لازمی موجود ہیں جو ماضی کے اس حصے کو استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بطور مسلمان ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ اس مسئلہ کو انفرادی سطح پہ حل کرنے کی بجائے اجتماعی سطح پہ اجاگر کیا جائے۔ انفرادی سطح پہ کیے جانے والے اقدامات سے یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا بلکہ شدت سے بڑھے گا یہاں تک تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے۔اس کو آپ حالیہ فرانس کے واقعات کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایک گمنام جگہ پہ چلنے والا اخبار اس گھناونی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس کو اجتماعی سطح پہ روکنے کی بجائے انفرادی سطح پہ روکنا چاہا۔ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا تعلق اس اخبار سے تھا ہی نہیں وہ محض اس اخبار کے پرانے دفتر کی بلڈنگ کے باہر کھڑے تھے۔اس اخبار کی سرکولیشن ڈیڑھ دو ہزار سے بڑھ کر کہاں تک جا پہنچی۔اسی طرح اس پروفیسرکو بھی نجی سطح پہ روکنے کے ردعمل میں فرانس کی حکومت جو اس سے قبل غیر جانبدار تھی اس نے اس کو ریاستی نقصان قرار دے دیا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے مسلمانوں کو ان کمیونٹیز سے دور ہونے کی بجائے اس میں سرائیت کرنے کی ضرورت ہے۔ مغرب میں ایک سیکولر معاشرہ پروان چڑھ چکا ہے جو مذہب کی شناخت کے بغیر قابلیت کی بنیاد پہ افراد کی درجہ بندی کرتا ہے۔ اسی کی بنیاد پہ ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ بیشتر مغربی ممالک میں مسلمان کئی اعلیٰ عہدوں پہ براجمان نظر اآتے ہیں ۔ موجودہ صورت حال میں بھی متحارب صورتحال سے اجتناب کرتے ہوئے مغربی معاشروں اعلیٰ سطح پہ فیصلہ کرنے والے اداروں میں اپنی نمائندگی کو بڑھائیں ۔ مغرب میں قانون کو بہت زیادہ حد تک حساس بنایا گیا ہے ۔ جو کہ عزت نفس تک کی پامالی پہ بہت زیادہ جرمانے اور سزائیں تجویز کرتا ہے۔ ان قوانین نے ان معاشروں میں برداشت پیدا کر دی ہے۔ اس لیے اگر کبھی ایسے ناخوشگوار واقعات جنم لیں تو انہیں مقامی عدالتوں میں لیجایا جائے جہاں انہیں قانون کے مطابق سزا ملےتو یقینا ایسے رجحان میں کمی واقع ہو گی۔ تہذیبوں کے مابین ٹکراو کو روکنے کے لیے ان کے مابین مکالمے کی ضرورت ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سمجھیں کہ کسی عمل کے پیچھے کون کون سے عوامل کارفرماں ہیں۔ اصل میں مغرب نے 1648 کے سوسالہ جنگ کے بعد مذہب کا ریاستی امور میں کردار محدود کردیا جو کہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ جس کی وجہ سے وہاں مذہب کے بارے نقطہ نظر ہمارے ہاں سے مختلف ہے۔ مختلف انبیا پہ مغربی فلمی انڈسٹری پہ درجنوں فلمیں بن چکیں ہیں ۔ اس لیے ان کے ہاں ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔جیسے ہندو مذہب میں گائے کو خدا کا درجہ حاصل ہے لیکن مسلمان اور دیگر مذاہب گائے کو ذبحہ کرتے ہیں ۔یہاں بھی متحارب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ مذہبی راہنماوں کو ایک جگہ بیٹھ کر اس پہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے۔ جس سے عوام کی راہنمائی ہو سکے۔امام خانہ کعبہ ، امام علی خامنائی ، پوپ، اور یہودی مذہبی لیڈران کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرکے آپس میں گفتگو کروائی جائے۔یقینا سلیم الفطرت افراد ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ۔انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ مسلمان ممالک میں ہونے والی جنگوں کا ردعمل سب سے زیادہ مغربی ممالک کی عوام نے ہی ظاہر کیا جہاں لاکھوں افراد نے اپنی حکومتوں کے خلاف مظاہرے کیے۔ جو ان جنگوں کے خاتمے کا باعث بھی بنے۔ بہت سے سربراہان اپنے اپنے ممالک میں عوامی غم و غصے کا شکار بنے اور اقتدار سے محروم ہو گئے۔جبکہ ان جنگوں کا ردعمل کسی مسلمان ملک میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس لیے اس بات کے قوی امکان ہیں کہ ڈائیلاگ کے نتیجہ میں اگر ہم مغرب کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہمارے جذبات کی قدر کی جائیگی اور شر پسند عناصر کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جائیگا ۔ ایسا ہی ہمارے ہاں کیے جانے کے بھی انتظامات کیےجانے چاہیں ۔ سب سے آخر پہ مغربی مصنفین نے جن جن کتب سے مواد اکٹھا کرکے ہمیں یہ بتایا کہ یہ مواد توہین پہ مبنی ہے ان کتب کے بارے بھی کوئی حتمی فیصلہ کر لینا چاہیے ۔ اگر ہم خود ان کتب کی حفاظت کر کے انہیں صدیوں کے مسافت طے کروا کر آج کے دور تک نہ لاتے تو یقینا مستشرقین کو بھی وہ توہین آمیز مواد تک رسائی نہ ملتی۔ اگر آج بھی ان کتب سے جان چھڑوا لی جائے تو یقینا آنیوالی نسلیں اس تکلیف سے گزرنے سے بچ سکتیں ہیں۔