Wednesday 16 August 2023

جناح کا راست اقدام جس نے ہندوستان کو خون میں نہلا دیا

0 comments
آزادی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے پھر ہماری آزادی نے المیے کی شکل کیسے اختیار کی؟ برطانیہ نے برصغیر میں مسلم دور حکومت کا خاتمہ کیا پھر برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندو مسلم بلا تفریق مذہب آزادی کی جدو جہد میں شامل رہے۔ پھر ہماری دشمنی اور نفرت کا رخ برطانیہ کی بجائے آپس میں ہندو مسلم دشمنی کی طرف کیوں ہے؟ ہندوستانی معاشرے میں سبھی مذہب کے لوگ آپس میں ہم آہنگی سے رہ رہے تھے ان میں انتشار اور فسادات کے واقعات کے پیچھے برطانیہ کی ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی کار فرما تھی۔ پھر تقسیم ہندوستان کے بعد قتل و غارتگری اور لوٹ مار کے واقعات کی وجوہات کیا تھیں؟ ہمارا مطالعہ پاکستان کا نصاب اس پہلو پہ نہ صرف تو روشنی ڈالنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا بلکہ اس کے محرکات کو چھپانے کی مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے۔ چلیں اس سوال کی کھوج میں نکلتے ہیں۔ 1945 میں ہندوستان میں جدا گانہ بنیادوں پہ عام انتخابات ہوئے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے سبھی مسلم اور آل انڈیا نیشنل کانگریس نے سبھی غیر مسلم نشستوں پہ کامیابی حاصل کی تو ہندوستان کا مذہبی بنیادوں پہ تقسیم ہونا طے ہو گیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے مابین حکومت سازی کے معاملات طے کرنے کے لیے پہلے ویول پلان اور بعد میں کابینہ مشن پلان پیش کیا گیا۔ کابینہ مشن پلان میں یہ طے پایا تھا کہ حکومت میں شمولیت کی دعوت اسی سیاسی جماعت کو دی جائے گی جو پلان کو مکمل طور پہ تسلیم کر لے گی۔ ابتدا میں کیبنٹ مشن پلان پر کانگرس اور مسلم لیگ کا رد عمل مختلف رہا۔ 6 جون 1946ء کو مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا، کیونکہ اس میں ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے آثار موجود تھے۔ اس میں صوبوں میں تین گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جنہیں دس سال کے بعد وفاق سے علیحدگی کا اختیار دیا گیا تھا اس طرح دس سالوں کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پہ قائم صوبوں پہ مشتمل پاکستان بنتا نظر آ رہا تھا۔ پلان نے ہندوستان کے گیارہ صوبوں کو اس طرح تقسیم کیا۔ گروپ الف میں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ، بہار، بمبئی، سی پی، مدراس اور یو۔ پی۔ گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب، صوبہ سرحد اورسندھ جبکہ گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔ پلان کی ایک شق کے مطابق کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ہوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں، توکل ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ کانگریس نے پلان کو قبول کرنے سے ہچکچاہٹ ظاہر کی کیوں کہ وہ اکھنڈ بھارت کی قائل تھی اور ہندوستان کو تقسیم کرنے کی مخالف تھی۔ کانگریس کا یہ موقف تھا کہ یہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ کابینہ مشن پلان کے حصوں کی حتمی منظوری دے۔ اس طرح انہوں نے یہ واضح کیا پارلیمنٹ بعد ازاں گروپ بندی کو ختم کر سکتی ہے۔ دوسری طرف کانگرس نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے بالآخر 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان کے ایک حصے کو مشروط طور پر منظور کر لیا جو کہ طویل المدتی تھا جس کے تحت صوبوں کو گروپوں میں تقسیم اور آل انڈیا یونین کا قیام عمل میں لانا تھا جبکہ دوسرے حصے کو جس کے تحت ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا اس کو نامنظور کر لیا۔ برطانوی سرکار کانگریس کے بغیر حکومت سازی کو عمل کو تشکیل دینے سے گریز کر رہی تھی اور کانگریس اپنی شرائط پہ اس عمل میں شریک ہونے پہ زور دے رہی تھی۔ اس طرح حکومت سازی کے تینوں فریقوں کے مابین خوب بدگمانی پیدا ہو چکی تھی۔ اس صورت حال میں انگریز سرکار کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کو عبوری حکومت بنانے کی پیشکش کرتے، کیونکہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کو مکمل طور پر قبول کر لیا تھا، لیکن افسوس کہ انگریز سرکار ایسا نہ کر سکی انگریز کی اس بدعہدی کے نتیجے میں مسلم لیگ نے احتجاجاً 29 جولائی 1946ء کو نہ صرف اپنی قبولیت (کابینہ مشن پلان کی قبولیت) واپس لی بلکہ راست اقدام لینے کا بھی فیصلہ کیا اور پورے ہندوستان کی سطح پر ہڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔ اس موقع پر کانگرس پنڈتوں نے ایک نیا سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے 10 اگست 1946ء کو کابینہ مشن پلان کے دونوں حصوں کو منظور کر لیا۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد وائسرائے ہند نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 اگست 1946ء کو کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو سے عبوری حکومت کے قیام سے متعلق تجاویز طلب کیں۔ مسلم لیگ اقتدار سے باہر ہو گئی تھی اسے ایک بار پھر 1937 میں قائم ہونے والی کانگریسی وزارتوں کا خوف ڈراؤنے کی طرح نظر آنے لگا تھا۔ مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن کے طور پہ قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس اعلان کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ہوا جو علاقے اور شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں کلکتہ، بمبئی ، آگرہ ، احمد آباد، نواں کلی، بہار اور دہلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ مسلم لیگ نے 16 دسمبر 1946 کو ہڑتال کا اعلان کیا تھا بنگال میں مسلم لیگ کی حمایت سے حسین شہید سہروردی وزیر اعلی تھے۔ جنہوں نے ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے ہندؤ دوکانداروں اور تاجروں کو کام مکمل طور پہ بند کرنے سختی حکم دیا جسے تسلیم نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی دھمکی بھی دی۔ کلکتہ میں ہندو آبادی اکثریت میں تھی اور نکالے جانیوالے جلوس کی قیادت خود وزیر اعلی سہروردی کر رہے تھے۔ پیش آنے والے واقعات کو محتاط انداز میں بنگال کے گورنر نے وائسرے کو لکھی جانیوالی چھٹی میں اس طرح بیان کیا۔ ان کے مطابق مسلم لیگ نے کلکتہ میں اوچر لونی کی یادگار کے پاس شام چار بجے جلسے کا اہتمام کر رکھا تھا جس سے وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کو خطاب کرنا تھا۔ تاہم صبح دس بجے ہی سے پولیس ہیڈ کوارٹر میں کشیدگی کی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں۔ شہر میں مسلم لیگی کارکن زبردستی دکانیں بند کرا رہے تھے۔ جلسہ گاہ کی طرف آنے والے بیشتر افراد نے لوہے کی سلاخیں ، لاٹھیاں اور بلم اٹھا رکھے تھے۔ مسلم لیگی وزیروں نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کے لیے پٹرول کے کوپن بڑی تعداد میں تقسیم کیے تھے تاکہ ہندوﺅں کی دکانوں اور مکانات کو نذر آتش کیا جا سکے۔ دس ہزار کارکنوں کے لیے ایک مہینے کا راشن جمع کر لیا گیا تھا۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سہروردی اور ناظم الدین نے بیک وقت امن اور فساد کی باتیں کیں۔ سہروردی کا ایک جملہ یہ تھا کہ وہ ’پولیس اور فوج کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے‘۔ اس بظاہر سادہ جملے کا مشتعل اور ان پڑھ ہجوم نے یہ مطلب لیا کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہو گا۔ مرنجاں مرنج ہونے کی شہرت رکھنے والے خواجہ ناظم الدین نے حاضرین کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ’صبح سے اب تک ہونے والے لڑائی جھگڑے میں مجروح ہونے والے تمام افراد مسلمان ہیں‘۔ جلسہ ختم ہوتے ہی تقریباً ایک لاکھ نفوس کا ہجوم کلکتہ کی تنگ گلیوں اور گنجان علاقوں میں پھیل گیا۔ دن ختم ہونے سے پہلے چار سے چھ ہزار تک غیر مسلم شہری مارے جا چکے تھے۔ وزیراعظم سہروردی خود پولیس کے کنٹرول روم میں براجمان تھے۔ امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست1946ء کی رپورٹ کے مطابق ’کلکتہ کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہو چکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ‘ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہو گیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔ ڈائریکٹ ایکشن ڈے سے حاصل ہونے والے کانفیڈنس نے حالات کو نفرت سے بھر دیا تھا جس کا کھلا مظاہر نواکھلی میں ہوا۔ جہاں ہندو آبادی کا قتل عام 10 اکتوبر کوجاگری لکشمی پوجا کے دن شروع ہوا اور تقریباً ایک ہفتہ تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 5000 افراد مارے گئے، سیکڑوں ہندو خواتین کی عصمت دری کی گئی اور ہزاروں ہندو مردوں اور عورتوں کو زبردستی اسلام قبول کیا گیا۔ تقریباً 50,000 سے 75,000 زندہ بچ جانے والوں کو کومیلا، چاند پور، اگرتلہ اور دیگر مقامات پر عارضی ریلیف کیمپوں میں پناہ دی گئی۔ تقریباً 50,000 ہندو مسلمانوں کی کڑی نگرانی میں متاثرہ علاقوں میں محصور رہے جہاں انتظامیہ نام کی کوئی شے نہ تھی۔ کچھ علاقوں میں ہندوؤں کو اپنے گاؤں سے باہر سفر کرنے کے لیے مسلم رہنماؤں سے اجازت نامہ لینا پڑتا تھا۔ زبردستی مذہب تبدیل کرنے والے ہندوؤں کو تحریری اعلانات دینے پر مجبور کیا گیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ اب آگ پوری طرح پھیل چکی تھی۔ سال کے سب سے بڑے فسادات 27 اکتوبر سے 6 نومبر تک ہوئے، اس عرصے کے دوران اس مہینے کے شروع میں ہونے والے نواکھلی فسادات کے بدلے میں ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی۔ہلاکتوں کی تعداد کے تخمینے میں کافی فرق تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں ہلاکتوں کی تعداد 5000 بتائی گئی ہے۔ معروف انگری جریدے سٹیٹس مین نے ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ 7,500 اور 10,000 کے درمیان لگایا تھا۔ جب کہ انڈین نیشنل کانگریس نے اسے 2,000 اور مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح نے کہا کہ 30,000 لوگ مارے گئے تھے۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 5 نومبر کو مہاتما گاندھی جو کلکتہ میں تھے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بہار میں تشدد 24 گھنٹوں کے اندر بند نہ ہوا تو وہ مرنے تک بھوک ہڑتال کر دیں گے۔ ان کے بیان کو کانگریس لیڈر راجندر پرساد نے قومی سطح پر نشر کیا۔ مسلم لیگ کے ایک رہنما محمد یونس نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ بقر عید کا تہوار جو کہ 5 نومبر کو ہوا، یوم سوگ کے طور پر منائیں۔ 5 نومبر کو عبوری حکومت کے سربراہ جواہر لال نہرو نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں اس پاگل پن کو ختم کرنا چاہیے، ہم بعد میں بحث کر سکتے ہیں جو کچھ ہوا اور جو کچھ بہار صوبے کے کچھ حصوں میں ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے اور میں یقین نہیں کر سکتا کہ انسان اس طرح کا برتاؤ کر سکتا ہے۔" اسی طرح کے حالات کا دیگر جگہوں پہ بھی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جہاں ہندو مسلم ایک دوسرے کے وجود کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اب ایسے حالات میں جہاں دونوں مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایک دم سے برطانوی عمل داری کا اٹھ جانا درندوں کے گلے سے پٹہ نکالنے کے مترادف تھا پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ 1946 کے ان فسادات نے وہ بنیاد فراہم کی جس پہ ہندو مسلم نفرت کی عمارت تعمیر کی گئی پھر دونوں جڑواں ریاستوں نے برطانیہ کو اپنا نجات دہندہ اور آپس میں ایک دوسرے کو دشمن قرار دیا۔ تاریخ میں جو ہوا وہ واپس نہیں لایا جا سکتا لیکن انیوالی نسلوں تک حقائق پہنچا کر ہندو مسلم دشمنی کو کم سطح پہ لایا جا سکتا ہے جس کی بھینٹ اس وقت پونے دو ارب لوگ چڑھ رہے ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔