Thursday 29 April 2021

قیام پاکستان کی بنیاد محض مذہبی نہ تھی

0 comments
قیام پاکستان کے بین لاقوامی محرکات کے نام سے چھپانے والا گزشتہ کالم تو صر ف اسی نقطہ کے ارد گرد تھا کہ جس زمانے میں پاکستان کا قیام عمل میں آ رہا تھا اس وقت بین الاقوامی دنیا کی سیاست کی شطرنج میں مہرے کس کس پوزیشن میں تھے ۔اور یہ بھی بات زیر بحث رہی کہ ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے پیچھے بین الاامی مفاد موجود تھا ۔ اسی مفاد کی کی پاسبانی ہم شاید آج تک کر رہے ہیں۔ جتنا ضروری یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون سے بیرونی محرکات تھے جو تقسیم ہند ستان کے عمل میں برق رفتاری پیدا کر رہے تھے۔ اتنا ہی ضروری اس وقت کی ہندوستانی سیاست پہ بھی گہری نظر ڈالنے کی ہے تاکہ ہر سیاسی جماعت کی پوزیشن واضح ہو سکے۔ قیام پاکستان کے بعد جو نظریہ پاکستان تخلیق کیا گیا اس کی حقیقت بھی انہی سالوں کی سیاست کے قالین کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی سب سے بڑی دعویدار آل انڈیا نیشنل کانگریس تھی ۔ ایک وہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی جماعت تھی۔ دوسرا وہ پورے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کا دعوی بھی کرتی تھی ۔ ان کے اس دعویٰ میں تقویت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسےبراہ راست مسلمانوں کی کثیر تعداد کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کئی علاقائی مسلمان جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ڈاکٹر ذاکر خان، سیف الدین کچیلو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی قدآور شخصیات بھی کانگریس کی ہمنوا تھیں اور سب اس بات پہ مصر تھے کہ ہندوستان کے متحدہ قومیت کے تصور کو تسلیم کیا جائے اور تقسیم ِ ہند کو کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا۔ہندوستان کی واحد نمائندہ ہونے کے دعویٰ میں اس وقت بھی تقویت پیدا ہو جاتی ہے جب 1936 کے انتخابات پہ نظر ڈالی جائے جب وہ پورے ہندوستان کی واحد کامیاب جماعت کے طور پہ ابھری اور آٹھ صوبوں میں بلاشرکت غیر حکومت بنائی۔
جمعیت علماء ہند کے پاس بھی مسلماقونوں کی کثیر تعداد کی رہبری کا دعوی تھا۔چونکہ دارالعلوم دیو بند مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے ساتھ سے ہی احیاء دین کے لیے کوشاں تھی اس لیے ایک لمبے عرصے تک ہندوستان میں دین کے لیے جدوجہد کرنے کے باعث عوام میں مقبولیت کا ہونا ایک فطری امر تھا۔ جمعیت علما ء ہند دارالعلوم دیوبند کا سیاسی بندوبست تھا۔اس کی بنیاد 1919میں مولانا عبدالمحاثم ساجد، قاضی حسین احمد ، احمد سعید دہلوی ، عبدالباری فرہنگی محلی نے رکھی تھی ۔یہ کانگریس کی ہمنوا تھی۔مولانا حسین احمد مدنی صاحب، مفتی کفایت اللہ صاحب سمیت کئی جید علما نے بانگ دہل قیام پاکستان کےموقف کی مخالفت کی اور شرعی اعتبار سے اسے ممنوع قرار دیا۔مولانا حسین احمد مدنی صاحب کے مطابق اقوام اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں۔وہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے موجد اور مسلم لیگ میں شمولیت حرام ہے کے فتوی کے خالق بھی تھے۔
جماعت الاحرار جو تحریک خلافت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی تھی ۔ علامہ عطا ء اللہ شاہ بخاری، علامہ مظہر حسین اظہر مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی جیسےجوشیلے مقرر اور علما اس کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔یہ قیام پاکستان کے مخالف تو تھے ہی لیکن ساتھ ہی اپنے مخالفین خصوصا مسلم لیگی قیادت کو اخلاق سے گھٹیا القابات سے پکارنا ان کا شیوا تھا۔ جیسے قائد اعظم کو کافر اعظم، پاکستان کو پلیدستان سمیت کئی دیگر القابات جماعت الاحرار کے پلیٹ فارم سے ہی تخلیق کیے گئے۔سیاسی اعتبار سے یہ بھی قیام پاکستان کے مخالف تھے اور پورے ہندوستان کو آزاد کر کے خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتے تھے۔تقسیم ہند کے بعد جماعت الاحرار کی قیادت پاکستان تشریف لے آئی مگر ان کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی ۔ 1953 میں پنجاب میں ہونے والے فسادات کے پیچھے جماعت الاحرار ہی کا ہاتھ تھا۔
ایک اور بڑی مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی تھی جس کے بانی اور قائد مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ تھے۔ موصوف بھی قیام پاکستان کے خلاف تھے جس کا اندازہ ان کے اس مختصر قول زریں سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمد علی جناح جنت الحمقا( احمقوں کی جنت) کا بانی اور اور اجل ِ فاجر ہے۔ پاکستان جنت الحمقا اور کافروں کی حکومت ہو گی۔اگرچہ مولانا مودودی صاحب کی قیام پاکستان مخالف سیاسی سوچ پہ کئی صفحات لکھے جا سکتے ہیں لیکن جامعیت کے اعتبار سے ان کا یہ مختصر جملہ ہی کافی وشافی ہے ۔اور مولانا کا یہ موقف قیام پاکستان کے بعد بھی ضروری ترامیم کے ساتھ برقرار رہا۔
اہل تشیع حضرات کی نمائندہ مومن کانفرنس شمال مشرقی ہندوستان کی ایک زبردست تنظیم تھی۔ یہ بھی پسماندہ مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار تھی ۔سیاسی اعتبار سے یہ جماعت بھی آل انڈیا نیشنل کانفرنس کی ہم خیال تھی۔ انہوں نے 1943 میں ایک قرار داد پاس کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اور قومی حمیت کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ اپنی مادر وطن کو تقسیم کر کے اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دے۔اس کے علاوہ آل انڈیا شعیہ کانفرنس، آل انڈیا مسلم مجلس، جمعیت اہل حدیث، انجمن وطن (بلوچستان)،ساوتھ انڈیا سیپریشن کانفرنس جیسی دیگر مسلمان تنظیمیں بھی تقسیم ہندوستان کی شدت سے مخالف تھیں ۔تقسیم ہندوستان کی مخالف تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے جذبات ابھارنے کے لیے اشعار پڑھے جاتے تھے ان کا اندازہ شمیم کرہانی کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم کو بتلاؤ تو کیا مطلب ہے پاکستان کا جس جگہ اس وقت مسلمان ہیں نجس ہے کیا وہ جگہ نیش تہمت سے ترے ، چشتی کا سینہ چاک ہے جلد بتلا کیا زمین اجمیر کی ناپاک ہے تمام مذہبی جماعتیں بلاتفریق قیام پاکستان کی مخالفت تھیں ۔ یہ ضرور ہے کچھ علما اکرام جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی وغیرہ اپنی ذاتی حیثیت میں مسلم لیگ کے حامی تھے لیکن ان کا جماعتی نظم و ضبط قیام پاکستان کے مخالف ہی رہا۔ مذہبی جماعتوں کے علاوہ کچھ ایسی علاقائی جماعتیں بھی تھیں جو مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھیں ۔ جیسے پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت یونینسٹ پارٹی تھی جس نے ایک لمبے عرصے تک پنجاب پہ حکومت کی تھی۔ سر فضل حسین اور سر سکندر حیات جیسی قد آور شخصیات اس پلیٹ فارم سے پنجاب کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ یہ انگریزوں کی سرپرستی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو پنجاب کے باسیوں کے لیے مراعات لینا آسان ہوا۔ یہ جماعت بھی کانگریس کی ہمنوا تھی اور متحدہ ہندوستان اس کا سیاسی منشور تھا۔ 1946 کے انتخابات سے قبل جناح –سکندر معاہدے کی بدولت مسلم لیگ کے لیے پنجاب میں حالات کچھ سازگار ہوئے۔ اس معاہدے کا بعد میں کیا بنا یہ الگ سے ایک دلچسپ داستان ہے۔ لاہور ہی کو مرکز بنا کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ایک اور تنظیم خاکسار تحریک تھی۔ حمیدالدین مشرقی اس کے روح رواں تھے خاکی شرٹ اور ہاتھ میں بیلچہ ان کی پہچان تھا۔رفیق نامی ایک خاکسار کارکن نے قائد اعظم پہ قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا۔ تحریک پاکستان میں متحدہ ہندوستان ان کے سیاسی نظریات کا مرکز تھا۔اسی طرح خان عبدالغفار خان عرف باچہ خان جنکو سیاسی نظریات میں پرامن اور عدم تشدد جیسے نظریات رکھنے پہ لوگ سرحدی گاندھی کے نام سے یاد کرتے تھے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا ٹرایبیوٹ تھا۔ باچہ خان بھی متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے۔باچہ خان ہماری قومی تاریخ کا ایک بدنصیب کردار ہے جس کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد ریاستی اداروں کی طرف سے انتہائی نامناسب سلوک روا رکھا گیا جس کی تفصیلات کے لیے الگ سے کالم لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جس تناظر میں بات آج کی جا رہی وہ قیام پاکستان کے مخالف کیمپ میں ہی نظر آتے ہیں ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906 میں انگریزوں کی ایما پہ ہی عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد عوام میں مقبول ہوتی آل انڈیا نیشنل کانگریس پہ دباو ڈالنا تھا۔ مسلم لیگ عرصہ دراز تک محض ڈرائنگ روم کی سیاسی جماعت تھی ۔ جو اپنے سالانہ جلسے کے علاوہ عوامی میٹنگز کا اہتمام نہیں کرتی تھی۔ بڑے بڑے نواب اور رئیسان ِ وقت اس کے نمائندہ ہو ا کرتے تھےجو کانگریس کو چیک اینڈ بیلنس کے دوران انگریزوں سے مراعات حاصل کر لیا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کے قد کاٹھ کا اندازہ 1936 کے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے جہاں اسے پورے ہندوستان سے کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس کے سربراہ بنے تو اس کی تنظیم نو کی گئی جس سے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن سمیت دیگر ذیلی تنظیمیں بنی، مسلم لیگ کے نمائندہ اخبارات کا اجراء کیا گیا تو مسلم لیگ قومی سطح پہ متحرک ہوئی ۔ قائد اعظم کی ساری زندگی ہندوستانی عوام کی آئینی حقوق کے حصول میں جدوجہد کے دوران گزری۔ کانگریس میں دادا بھائی نوروجی اور گھوکھلے جیسے اعتدال پسند رہنماوں کی جگہ موتی لال نہرو، گاندھی اور لالہ لاجپت رائے جیسے تنگ ذہنیت کے حامل رہنما وں نے کانگریس کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو جناح صاحب نے کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلمانوں کے آئینی حقوق پہ توجہ مرکوز کر لی۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس طرح مسلم لیگ پورے منظر نامے پہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے مطالبے میں علیحدہ وطن کا حصول شامل تھا ۔ 1945 کے انتخابات اس سلسلے میں تب ایک ریفرنڈم کی شکل اختیار کرگئے جب قائد اعظم نے اپنے اخباری بیان میں کہہ دیا کہ اگر مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو جائے گی۔ ایسی نازک صورت حال میں بھی مذکورہ بالا تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا وزن آل انڈیا نیشنل کانگریس کے پلڑے میں ہی ڈالا۔اس لیے قیام پاکستان کے مقاصد کا تعین بھی مسلم لیگ ہی کا صوابدید ہونا چاہیے ناکہ اس کے مخالف عناصر کو یہ موقعہ دیا جائے کہ وہ اس کی منزل کے تعین میں حتمی کردار ادا کریں۔ اب آخر پہ اس نعرے کی بابت بات کرتا چلوں جس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الااللہ ۔یہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے شاعر اصغر سودائی کی نظم کا حصہ تھا جیسے 1946 کے انتخابات کے دوران لوکل سطح پہ لوگوں کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے پڑھا گیا۔ وہ شعر و شاعری کا دور تھا لوگ اپنی تقریروں میں طویل نظمیں پڑھا کرتے تھے اور مقبول شعراء کا سیاسی جلسوں میں خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔اسی طرح اصغر سودائی بھی جب سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کا پیغام لیکر نچلی سطح تک عوام میں گئے تو وہ اپنا کلام پڑھ کر عوام کا لہو گرمایا کرتے تھے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا مسلم لیگ کی کسی مرکزی یا صوبائی تنظیم نے اس نعرے کو اپنے پلیٹ فارم سے لگایا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔یہ نعرہ صرف ایک مرتبہ مسلم مشائخ کانفرنس کے موچی دروازے کے باہر منعقد ہونے والے جلسے میں لگایا گیا جس کا اہتمام پیر جماعت علی شاہ صاحب نے مسلم لیگ کی الیکشن کیمپین کی حمایت میں کیا تھا۔ کیونکہ علما کے برعکس درگاہوں کے متولیوں اور صوفیاکے پیروکاروں کا جھکاو مسلم لیگ کی جانب تھا۔ سر یامین اور نواب صاحب آف محمود آباد جیسے قائد اعظم کے انتہائی قریبی اور بااعتماد لوگ اپنی سوانح عمر ی میں یہ بات لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری سالانہ اجلاس کراچی کے دینا ہال میں ہوا جس کی صدارت قائد اعظم نے کی۔ بہار سے آئے ہوئے لوگوں نے قائد اعظم سے سوال کیا کہ کیا مستقبل کے پاکستان کی نوعیت ایسی ہو گی جیسا ہمیں نعرہ سننے کو مل رہا ہے؟ ان کا اشارہ اسی نعرے کی جانب تھا ۔ قائد اعظم نے بہار کے وفد سے کہا آپ بیٹھ جائیے ۔ بیٹھ جائیے ۔بیٹھ جائیے۔ پھر آگے فرمایا کہ ہاں یہ بات میرے علم میں بھی آئی ہے کہ نچلی سطح پہ چند ایک ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ نعرہ لگایا گیا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل کا پاکستان ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
اس نعرے کی حقیقت کا پتہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی شعور کے اعتبار سے بنگال سب سے باشعور خطہ تھا۔ مسلم لیگ کی بنیاد بنگال میں رکھے جانے کے علاوہ پاکستان کی قرار داد پیش کرنے والے بھی بنگالی ہی تھے۔قیام پاکستان کے بعد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا جس میں 54فیصد آبادی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نعرہ پاکستان کی تحریک کا روح رواں تھا تو بنگال اس سے بے خبر کیوں تھا؟ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں کئی تحریکیں چلیں لیکن کسی ایک تحریک میں بھی یہ بات نہیں دہرائی گئی کہ پاکستان اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا ہے لہذا اس میں اسلام نافذ کیا جائے۔بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم اور حسین شہید سہروردی جیسے تحریک پاکستان کے فرنٹ لائن لیڈر بعد ازاں پاکستان کے وزرائے اعظم بھی بنے لیکن کبھی اس بات کا اعادہ نہیں کیا۔ یہ صورت حال اور بھی بہت ہی دلچسپ ہو جاتی ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پاکستان اسلام کے نام پہ قائم کیا گیا تھاتو اس وقت کی مذہبی قیادت کے مقام کا تعین کرنا آج کے پیروکاروں کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا کیوں جن لوگوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی وہ تب کے مذہبی راہنماوں کے مطابق گمراہ، بےدین، حتیٰ کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے تھے۔ اور بانیان پاکستان کے مطابق پاکستان کی بنیادیں سیکولر تھیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا عقدہ ترک کر دیں گے۔بلکہ ان کی رائے تھی کہ سیاسی اعتبار سے سب ایک قوم کے شہری ہوں گے۔اور مذہب ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہو گا۔
جنا ح صاحب نے اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت 13 جولائی 1947 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی۔جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گی اور غیر مسلم اقلیتوں کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔انہوں نے کہا پاکستان ڈومینین میں اقلیتوں کے مذہب ، عقیدے ، جان ومال اور ثقافت کا تحفظ ہو گا۔وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔اور ان کے ساتھ کسی بھی طرز کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔اقلیتوں کو ریاست کا حقیقی وفادار ہونا پڑے گا۔اسی کاپریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گی یا تھیو کریٹک تو ان کا جواب تھا یہ سوال احمقانہ ہے مجھے معلوم نہیں کہ تھیوکریٹک ریاست کا مطلب کیا ہے؟ اس پہ صحافی نے کہا تھیوکریٹک ریاست کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مسلمان تو پورے شہری ہوں گےاور غیر مسلم پورے شہری نہیں ہوں گے۔تو قائد اعظم نے کہا پھر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ رائیگاں چلا گیا جو اب تک میں نے کیا ہے۔خدا کے لیے ایسے بیہودہ خیالات اپنے ذہن سے نکال دیں۔ چنانچہ جناح کے پاکستانی نیشلزم میں مسلم کو غیر مسلم پہ کوئی برتری حاصل نہیں تھی۔ان کے نزدیک پاکستان کی جیوگرافیائی حدود میں آباد ہر شخص کو بلا تفریق مذہب اور عقیدہ ایک شہری کے حقوق اور ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ان کا نظریہ پاکستان جیوگرافیائی سرحدوں پہ مبنی تھا۔بعد ازاں عوام دشمن ملاوں اور فوجی آمروں نے اپنے غصب شدہ اقتدار کا نظریاتی جواز مہیا کرنے کے لیے نظریاتی سرحدوں کا جو نعرہ گھڑا اس کا قائد اعظم محمدعلی جنا ح نے پاکستانی نیشنلازم سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ ابو بکر صدیق,لاہور

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔