Thursday 29 April 2021

مقدمہ ||<علامہ اقبال ۔۔۔اور مصور پاکستان کی تہمت

0 comments
قیام پاکستان سے قبل جدوجہد پاکستان کی جیوگرافیائی سرحدوں کے حصول کے لیے تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ جس نقطے کے گرد گھومتی ہے وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہے۔ہم نے اسی نقطے کا استعمال کرتے ہوئے نظریاتی مملکت، اسلامی ریاست، اسلامی نظام ، نفاذ شریعت ، حکومت الہیہ کا قیام، جیسی اصطلاحات کو قومی یاداشت کا لازمی حصہ بنایا گیا۔اس امر کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اس کا ذکر سرسری طور پہ گزشتہ کالم قیام پاکستان کے بیرونی محرکات میں کیا گیا تھا لیکن تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد بنگال کے عوام نے اپنے معاشی وسائل کو اپنے اوپر صرف کیے جانے کا مطالبہ کیا ، ملازمتوں میں اپنے جائز حصے کی بات کی، یا آبادی کے تناسب سے وسائل کی تقسیم پہ زور دینا چاہا تو اس "پست قد حقیر مخلوق" کو ان کی اوقات یاد کروانے کی جائزیت اسی نظریہ نے دی۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ نظریاتی سرحدوں کو تصور ہی ان سر کش عناصر کو نکیل ڈالنے کی نوید بنتا ہے ۔اسی کی چھتر چھاوں تلے ہم نے ان تمام معاہدات کو پاوں تلے روند ڈالا جو ریاست پاکستان نے ان ریاستوں سے کیے تھے جنھوں نے تقسیم ہندوستان پہ بھارت کی بجائے پاکستان پہ اعتماد کیا تھا۔ اس ریاستی بندوبست میں سب سے اہم علامہ اقبال کا تصور پاکستان ہے۔ ریاستی بیانے کے مطابق یہ ہی وہ نقطہ ماسکہ ہے جس کے گرد سارا تانا بانا بنا گیا۔اس ضمن میں چند ایک سوالات ہیں جن کے جوابات ریاستی نصاب فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ سارا زور ان جوابات تک پہنچنے والے راستوں کو مسدود کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ کیا علامہ اقبال نے بیان کردہ تصور پاکستان پیش کیا تھا؟کیا اقبال خود مختار ریاست کے قیام کے حامی تھے؟ کیا اقبال وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں دو آزاد اور خودمختار ریاستوں کا حل تجویز کیا تھا؟کیا تحریک پاکستان میں کبھی اقبال کے مجوزہ تصور پاکستان کی بازگشت بعد کے سالوں میں بھی سنائی دی؟خود مختاری کے اصول پہ اقبال کا اپنا کیا موقف تھا؟ اگر ہم ان سوالات کے جوابات کے لیے تاریخ کے دروازے پہ دستک دیں تو حیرت انگیز اور چشم کشا حقائق ہمارے منتظر ہوں گے۔ نصابی تاریخ قیام پاکستان کو جب ایک نظریاتی ریاست سے تعبیر کرتی ہے تو وہ اس کی بنیاد 1930 کے خطبہ آلہ باد کو بنیاد کے طور پہ پیش کرتے ہیں ۔علمی خیانت کی اس سے بڑی کوئی مثال اور ہو ہی نہیں سکتی کہ کسی بھی لیول پہ یہ خطبہ سارے کا سارا پڑھایا نہیں جا تا بلکہ اس کا ایک درمیانی ٹکڑا سیاق و سباق سے ہٹ کر لکھا جاتا ہے ۔ ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ، خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘‘ علامہ اقبال کے اس بیان میں لفظ خود مختار (Autonomous)اصل خطبے میں موجود نہیں ہے اسے نظریہ ساز اداروں نے بعد میں منسلک کیا ہے ۔علامہ اقبال کا سارا خطبہ سائمن کمیشن کی ہندوستان میں آمد کے بعد کے سیاسی حالات کے پس منظر میں ہے ۔ جس میں آل پارٹیز کانفرنس، نہرو رپورٹ ، آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور جناح کے 14 نکات شامل ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں ہندوستان کے لیے ایک فیڈریشن کا نظام تجویز کیا جو کہ پچھلے چند ایک سالوں میں ہندوستان میں جنم لینے والا ایک مقبول تصور تھا۔سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور بلوچستان صوبہ سرحد اور پنجاب کو آپس میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی۔کیااقبال اس تصور کے بانی تھے ؟ اس کا جواب بھی علامہ اقبال اپنے اسی خطبے میں خود ارشاد فرماتے کہ یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی جسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا تھا کہ "اگر اس قسم کی ریاست قائم ہوئی تو یہ بے ہنگم طور پر وسیع و عریض ریاست ہو گی جس کا انتظام کرنا دشوار ہو گا" اس کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ اگر انبالہ ڈویژن جو ہندو اکثریت کا تھا، نکال دیا جائے تو یہ مجوزہ ون یونٹ کا صوبہ قابل عمل ہو جائے گا۔ رینان کے ’’قوم‘‘ کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا ’’اگر اکبر کا دین الٰہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہو جاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہو جاتی لیکن تجربہ بتلاتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں کہ وہ اپنی حیثیت کو ترک کر کے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کر لیں۔ قومیت ہند کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون اور اشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ میری رائے میں ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر صرف اس بات پر مبنی ہے کہ ہم قومیت ہند کا اتحاد اسی اصول پر قائم کریں۔‘‘ آگے چل کر کہا: ’’میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی جانب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار حل کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اپنے ہندوستانی مادر وطن کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ آپ نے ون یونٹ کا صوبہ تجویز کرنے کے بعد آگے چل کر کہا کہ ’’اس سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری مضبوط ہو گا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقع دیا جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما پا سکیں تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے وفاق ہندوستان کے دفاع پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور کہا ’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی رضامند ہو جائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانبدار فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھیں۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسر ہندو تھے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہو گا۔‘‘ علامہ نے اصل میں مسلم لیگ کے سرکاری موقف کے بارے میں کہ برصغیر میں ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کیا جائے یہ خطبہ بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اس میں صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا جو مطالبہ کیا وہ بھی مسلم لیگ پہلے سے کر رہی تھی۔ اس خطبے میں آپ نے ایک جگہ سندھ اور بلوچستان کو باہم ضم کر کے ایک صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مجوزہ وحدانی طرز کی مضبوط مرکز کی حکومت کی مخالفت کی اور کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ میں تمام اختیارات ما البقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں 33 فیصد نشستیں نہ ملیں۔‘‘ آپ نے مسلم اکثریت پر مبنی خودمختار ریاستوں یعنی صوبوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ’’ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان علاقوں میں ایک طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔‘‘ آپ نے اس کے لیے ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کے حوالے سے بتایا کہ’’ باوجودیکہ اسلام میں سود لینا حرام ہے ، مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر پابندی نہیں لگائی تھی۔‘‘اقبال کے خطبے کو تفصیلی جان لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ اقبال نے کسی خود مختار (Sovereign) ریاست کا تصور نہیں پیش کیا تھا۔ اقبال کے خطبے کو پڑھ لینے سے واضح تو ہوا لیکن پھر بھی ابہام ذہن میں ہو سکتا کہ ہم نے اقبال کے خطبے کی تشریح اپنے مقصد کے مطابق کر لی ہو۔ اقبال نے اگر ایسا نہیں کہا تھا تو وہ خطبہ آلہ آباد کے سات برس بعد تک زندہ رہے تو کیا انہوں نے خود اس کی تردید کی؟تو اس کا جواب بھی اثبات میں ہے۔ 1934 میں اقبال کی کتاب رموز خودی کا انگریزی میں ترجمہ چھپا تو اس کی ایک کاپی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ای،جے تھامپسن کو بھجوائی جنہوں نے اس پہ اپنا ریویولکھا اور 1933میں چوہدری رحمت علی خان کے پمفلٹ "Now or Never" میں ہندوستان کے سیاسی حل کو علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد کا تسلسل قرار دیا۔علامہ اقبال نے وہ ریویو پڑھا تو پروفیسر ای۔ جے تھامپسن کو خط لکھا ۔ یہ خطوط علی گڑھ یونیورسٹی نے شائع بھی کیے ہیں۔ آپ نے لکھا" ۔۔۔آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ ‘‘ کیا قائد اعظم محمد علی جناح جو کہ مسلم لیگ کے کاروان کے واحد میرکارواں تھے بھی اقبال کے تصور پاکستان سے لاعلم تھے؟ انہوں نے کبھی اپنے کسی خطبے میں یا مسلم لیگ نے اپنی کسی سرکاری قرار داد میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ 1938ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ دسمبر 1938ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں اس سال کے دوران وفات پانے والی تین معتبر شخصیات مولانا شوکت علی، کمال اتاترک اور علامہ اقبال کے بارے میں قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ کے اختتام پر تعزیتی الفاظ کہے۔ آپ نے علامہ کے بارے میں فرمایا “His death too is an irreparable loss to Muslim India. He was personal friend of mine and a singer of the finest poetry in the world. He will live as long as Islam will live. His able poetry interprets the true aspiration of the Muslims of India. It will remain an inspiration for us and for generations after us.” ترجمہ : ’’ اُن کی وفات مسلم ہند کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔وہ میرے ذاتی دوست تھے۔اور دنیا کی عمدہ ترین شاعری کے مغنی تھے۔وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔آپ کی پر مغز شاعری مسلمانان ہند کی امنگوں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔یہ شاعری ہمارے لئے اور ہمارے بعد کی نسلوں کے لئے ولولہ مہیا کرتی رہے گی۔‘‘ بات قابل غور ہے کہ قائد اعظم کے ہاں اقبال کی اہمیت کے کون سے گوشے قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے قبال کو اسلام سے وابستگی ، عالمگیر شاعری اور ذاتی دوستی کی بنا پر گراں قدر خراج تحسین پیش کیا ۔اسی اجلاس میں مسلم لیگ نے جوتعزیتی قرار داد پاس کی۔ اس میں بھی آپ کو اسلام کے سنجیدہ فلسفی “a sage philosopher of Islam”اور عظیم قومی شاعر “great national poet”کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اور اگر اقبال نے کوئی منفرد تصورپیش کیا ہوتا تو مسلم لیگ اپنے سابقہ صدر کی خدمات کو قومی سطح پہ لازمی سراہتی۔ تحریک پاکستان میں 23 مارچ 1940 کی قرار داد لاہور ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں سے مسلمانان ہند نے اپنی نئی اور واضح منزل کا نہ صرف تعین کیا بلکہ اس کے حصول کے لائحہ عمل بھی تشکیل دیا۔علامہ اقبال کی وفات کے دو سال بعد ان کی قبر کے سرہانے مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اس بات کا عہد کر رہے تھے کہ اب خود مختار ریاست سے کم ہرگز کچھ قبول نہ کیا جائے گا۔ لیکن اس جلسے میں قائد اعظم سمیت کسی بھی مسلم رہنما نے علامہ اقبال کا ذکر تک نہیں کیا۔کیا مسلم لیگ کی لیڈر شپ کی یاداشت اس قدر کمزور تھی کہ دو برس قبل دنیا سے رخصت ہونے والے عظیم رہنما جس نے دس سال قبل یہی بات کہی ہو ان کی خدمات کو ان کی قبر کے سرہانے فراموش کر دیا۔ صورتحا ل مذید دلچسپ تب ہو گئی جب قائد اعظم نے اپنی طویل افتتاحی تقریر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کی حمایت میں ماضی کا جو حوالہ دیا وہ تھا تو پنجاب سے لیکن وہ اقبال نہیں تھے بلکہ پنجاب کے مہاسبھائی لیڈر لالہ لاجپت رائے کا تھا جنھوں نے 1924ء میں اخبار ٹریبیون میں اپنے ایک مضمون میں برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی سکیم پیش کی تھی۔ غالباً یہ برصغیر میں پہلی بار تھا کہ ایسی کوئی سکیم پیش کی گئی تھی۔ اس کی سکیم یہ تھی کہ ’’مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی۔ (1) پٹھانوں کا صوبہ یا شمال مغربی سرحد۔ (2) مغربی پنجاب (3) سندھ اور (4) مشرقی بنگال۔ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیرمسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘‘ قائد اعظم نےخطبہ صدارت کے دوران انہی دنوں چھپی اندر پرکاش کی کتاب نکالی جس میں لالہ لاجپت رائے کا ایک خط شامل تھا جو اس نے 16 جون 1925ء کو کانگرس کے صدر سی۔آر۔داس کو لکھا تھا۔ قائد اعظم نے یہ پورا خط پڑھ کر سنایا جس میں لاجپت رائے نے جو لکھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہمارے لیے کوئی راہ نجات نکالنی چا یے۔‘‘ مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی تو اس کی تائید میں پنجاب سے چودھری خلیق الزمان کے علاوہ مولانا ظفر علی خان نے بھی تقریر کی۔ ان کے علاوہ جن اصحاب نے تقریر کی ان میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کے سردار اورنگ زیب، صوبہ سند ھ کے سر عبداللہ ہارون، صوبہ بہار کے نواب محمد اسماعیل، صوبہ بلوچستان کے محمد عیسیٰ خان، مدرس کے عبدالحمید خاں، بمبئی سے اسماعیل چندریگر، سی ۔پی کے عبد الرؤف شاہ اور ڈاکٹر محمد عالم شامل تھے۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ ایسی ہی سکیم غدر پارٹی کے بھائی پرمانند نے 1914-15 میں بھی پیش کی تھی۔ لاہور کے رہنے والے مولانا ظفرعلی خان جو کہ ایک باخبر صحافی بھی تھے سمیت کسی نے بھی حوالہ نہ دیا کہ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصور علامہ اقبال نے 10 سال پہلے پیش کیا تھا۔ 1940 کی قرار داد کا اصل نام قراد داد لاہور ہی تھا جیسے 1942 میں لفظ پاکستان کے اضافے کے ساتھ قرار داد پاکستان قرار دیا گیا پھر برطانوی ہندوستان میں ہونے والے آخری انتخابات میں اسے انٹخابی منشور کا حصہ بنا لیا گیا لیکن اگر نہیں ہو سکا تو وہ تصور پاکستان کو اقبال سے نہیں جوڑا جا سکا۔مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا کہ کسی نے پاکستان کو اقبال کے خطبہ آلہ آباد سے جوڑا ہو۔ حالانکہ 1943ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی میں انور قریشی نے جلسہ کے شروع میں ترانہ ’’چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا‘‘ پڑھ کر سنایا اور اسی اجلاس میں جی ایم سید نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کے اشعار کا استعمال کیا۔ اور پھر قائد اعظم نے صدارتی تقریر کی۔ مگر علامہ کا تصور پاکستان کے خالق کے طور پر کسی نے ذکر نہ کیا۔قیام پاکستان کے بعد ایک مرتبہ اقبال کا یوم پیدائش 9 نومبر 1947 کو اور ایک مرتبہ یوم وفات 21 اپریل 1948 کو آیا ۔ ان دونوں موقعوں پہ قائد اعظم حیات تھے۔ نہ تو قائد اعظم نے ان موقعوں پہ کوئی سرکاری بیان جاری کیا اور نہ ہی حکومت نے ان ایام کو سرکاری طور پہ منایا۔ اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تصور ہمارے ہاں اتنے زور شور سے رائج ہے تو پھر اس نے کب اور کیسے جنم لیا۔اس کے پیچھے کون سے محرکات تھے؟ ا سکا جواب قیام پاکستان کے بعد آبادی کی نقل و حرکت سے کمپوزیشن میں آنیوالی تبدیلی میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ تحریک پاکستان میں پنجاب کی شمولیت بہت بعد میں ہوئی۔ سر سکندر حیات نے جناح سے معاہدہ کیا تو 1945-46کے انتخابات میں مسلم لیگ پنجاب سے کامیاب ہوئی۔ جبکہ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کا کردار بہت فعال رہا تھا۔ صوبہ سندھ بھی بمبئی سے علیحدگی کے بعد مسلم اکثریتی صوبہ بنا تو تحریک پاکستان کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ 1938ء میں سندھ مسلم لیگ پراونشل پارٹی نے جی۔ایم۔سید اور مولانا عبد المجید سندھی کی قیادت میں یہ قرارداد پہلی بار منظور کی تھی کا مسلمانوں کا الگ وطن ہونا چاہئے۔ لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا کیونکہ جی ایم سید کے قاید اعظم کے ساتھ 46 کے انتخابات کیلئے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف ہو ا اور سید ہمیشہ کے لئے مسلم لیگ کا مخالف ہو گیا یہاں تک کہ بعد میں قیام پاکستان کا بھی مخالف ہو گیا۔ تاہم تاریخی حقیقت کے طور پر سندھ پراونشل مسلم لیگ کی قرار داد جو 1940 سے پہلے اور لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی نوعیت کی پہلی قرارداد تھی۔ پھر آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مہاجروں کی صورت میں نئی مملکت کا حصہ بنا تھاجن میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ، اسماعیل چندریگر، کئی وزرا بھی شامل تھے ان کا زمین کے ساتھ کوئی جذباتی رشتہ نہیں تھا ۔اس لیے پنجابی اور مہاجر شاونسٹوں دونوں کی یہ سیای ضرورت تھی۔ وہ جغرافیائی سرحدوں کے بجائے نظریاتی سرحدوں کے نام پر یہاں اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتے تھے۔پنجابی بنگالیوں کے مقابلے میں اپنی عددی کمی کو کسی بھی سیکولر ریاست کے ڈھانچے میں جو قائد اعظم کے دستور سازی کے تصور پر مبنی ہوتی ایک غالب قوت میں نہیں بدل سکتے تھے۔ چنانچہ نظریہ پاکستان کی ان کو بھی بڑی شدید ضرورت تھی جس کے لئے پنجابی علامہ اقبال سب سے موزوں شخصیت ہو سکتے تھے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔