Saturday 8 May 2021

طلاق کا بڑھتا رجحان اور بیرونی دنیا میں قائم ہونے والے بہتر مثالیں

0 comments
دنیا کے چوتھے امیر ترین انسان اور مائیکرو سوفٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس اور ان کی سابقہ اہلیہ ملینڈا کے مابین طلاق پہ پاکستان میں ایک حیرت کا سماں ہے کہ کیا اتنی چپ چاپ سکون کے ساتھ اور بغیر کسی تہمت کے بھی بھلا کوئی طلاق ہوتی ہے۔ چلیں اچھا ہوا ہم پہ طلاق کی ایک یہ جہت بھی کھلی کہ ضروری نہیں کہ عورت کو چھوڑنے سے پہلے اسے بد چلن اور نافرمان کہہ کر کسی اور قابل بھی نہ چھوڑا جائے۔ لیکن ایک اور پہلو بھی نہایت عمدہ ہے جسے ہمارے ہاں قانون کی شکل میں نافذ کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے طلاق کی صورت میں عورت کو بے آسرا اور معاشرے کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے مرد کی جائیداد سے حصہ دینا۔ بل گیٹس اس طلاق کے بعد اپنی جائیداد کا نصف تقریبا 73 ملین ڈالر اپنی سابقہ بیوی کو دینے کے پابند ہیں۔ اس سے قبل امریکی ای۔ کامرس کی کمپنی ایمیزون کے مالک بھی اپنی بیوی کو طلاق کی صورت میں دنیا کی مہنگی ترین طلاق دے چکے ہیں ۔ ہم نے جب سے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہے اسے اپنے مفاد کے لیے شیلڈ کے طور پہ ہی استعمال کیا ہے۔ ہمارے قانون ساز ادارے کبھی بھی ایسی قانون سازی نہیں کر سکے جس سے معاشرے میں تربیت کے پہلو نکل سکیں ۔ پاکستان میں بھی طلاق کی شرح نہایت بلند ہے۔ لیکن معاشرے میں کبھی اس کے تدارک کے لیے کوئی بھی قدم نہ ہی ریاست کی جانب سے اور نہ جنہوں نے مذہب کا علم اٹھایا ہوا ہے ان کئ جانب سے اٹھایا گیاہے ۔اس سے قبل انڈین سپریم کورٹ نے ایک مسلمان عورت کی درخواست پر مسلمان مرد کے ایک ہی نشست میں تین بار طلاق دے کر شادی کے مقدس بندھن کو ختم کرنے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ایسا کرنے والے کو جرمانے کے ساتھ تین برس تک قید کی سزا بھی سنائی جاسکے گی۔ عورت معاشرے کی چکی کا وہ پاٹ ہے جس کے بغیر معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ عورت خود اسی چکی میں پس رہی ہے۔ اسلام نے جو عورت کو مقام دیا آج اس کی سب سے زیادہ نفی اسلامی معاشرے میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ طاقت کی زیادتی انسان کو اندھا کر دیتی ہے جس سے وہ حق تلفی پہ اتر آتا ہے۔ نکاح عورت اور مرد کے مابین ایک باہمی سمجھوتے کا نام ہے جو دونوں کو یکساں حقوق دیتا ہے ۔نکاح سے مرد کو عورت پہ حکمرانی کا اختیار قطعاََ نہیں مل جاتا ۔مرد کے پاس طلاق کا ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کا استعمال معاشرے کو تباہی کی نہج پہ لے آتا ہے۔ طلاق ایک راستہ ہے اس باہمی سمجھوتے کو ختم کرنے کا ۔ لیکن اسے جذبات کی بھینٹ چڑھا کر ختم کرنا پشیمانی ، خاندانی نظام کی تباہی اور بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اکثر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ ایک ہئ نشست میں تین طلاقیں دے کر نکاح ختم کر دیتے ہیں لیکن جذبات کے بہاو سے باہر نکلتے ہی انھیں اپنے فیصلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے تو ہاتھ ملنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ اسلام نے طلاق کی متعدد اقسام بیان کی ہیں ۔ جنھیں بطور قانون نافذ کر کے اس ہیجان خیز کیفیت سے نکلا جا سکتا ہے۔ شرعی ماہرین ایک ساتھ تین طلاقوں کو طلاق بدعت کہتے ہیں ۔بدعت کے مسئلے پر امت میں اتنے سخت موقف کے باوجود ایک ساتھ تین طلاقوں کو امت نے گلے گلا کر معاشرتی نظام کو تہس نہس کر دیا ہے۔حکومت اس خوف سے باہر نہیں نکل پا رہی کہ کسی شرعی مسئلے پہ پارلیمان کو حرکت میں لائی تو مذہبی جماعتوں کا ردعمل نا قابل برداشت ہو جاتاہے۔مذہبی حلقوں نے اسلام میں تحقیق کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے چاہے کسی بنا پر کسی کی زندگی تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے وہ اس نزاکت سے خود کو ماورا سجھتے ہیں ۔ ایسے میں حکومت ہی کو معاشرے کو صراط مستقیم پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ نبی پاکﷺ نے تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی قرار دیا ۔حضرت ابو بکر صدیق ؒ نے بھی اپنے دور خلافت میں تین طلاقوں کو ایک طلاق کے طور پہ ہی نافذ رکھا۔ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں دو سال تک اسی حکم کو نافذ رکھا پھر وقتی ضرورتوں کے تحت ایک حکم نامے کے تحت ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دے دیا۔ اگر ایک حکومت وقتی ضروریات کے پیش نظر ایک حکم نامہ جاری کر سکتی ہے تو کوئی دوسری حکومت بھی کسی دوسری صورت حال میں اس کے بر عکس بھی کوئی قانون نافذ کر سکتی ہے۔ انڈین سپریم کورٹ کے قابل تحسین فیصلے نے کم از کم ہندوستان کی مسلمان خواتین کو ایک طرح سے راحت ضرور پہنچائی ہے کہ اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو ان کے پاس رجوع کرنے کی مہلت موجود ہو گی۔ اسلام کی تشریح کے لا متناہی اختیار علماء کو دے دینے سے اسلام ناقابل عمل مذہب بننے کے راستے پہ گامزن ہو رہا ہے۔ علماء اپنے مسلکی وابستی سے نکلنے کو تیار نہیں اور ان کے مسلک کا ماضی انہیں مستقبل میں جھانکنے کی اجازت نہیں دیتا۔طلاق جائز ہونے کے باوجود اللہ تعلیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔ اگر ایک مسئلے پر ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں تو ان میں بہترین عمل کو ریاستی طاقت سے نافذ کرنے میں اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ طلاق ہی کے مسئلے پر ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں ۔ جیسا کہ طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی ایک وقت میں چاہیے جتنی بار بھی طلاق کا لفظ بول دے وہ ایک ہی طلاق تصور کی جائے گی۔ اگر شوہر اپنی بیوی سے تین ماہ تک رجوع نہیں کرتا تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس دوران دونوں اپنی باہمی رضا مندی سے کسی وقت بھی اپنے رشتے کو بچا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف وقفوں سے بھی تین طلاق دینے کی صورت موجود ہے۔جس سے سوچ اور بچار کے لیے مناسب ترین وقت میسر آجاتا ہے جسے "کولنگ پیریڈ" کہا جاتا ہے۔ایک صورت خلہ کی بھی ہے جس میں عورت بھی نکاح کے بندھن کو توڑ سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے اسے عدالتی کاروائی کے ذریعے عدالت سے تنسیخ نکا ح کا سرٹیکفیکیٹ لینا پڑتا ہے۔ خاندانی نظام کی حفاظت کی خاطر طلاق کاحق بھی شوہر سے لے کر خلہ کے طرز پر عدالت کو دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح سے کہیں یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ مرد زیاد باشعور ہے جو اس طلاق کے حق کو عدل تحمل اور فہم و فراست کے ساتھ استعما ل کر رہا ہے۔دوسرا امریکی قانون کی طرز پہ طلاق کے بعد عورت کو بے سہارا چھوڑنے کی بجائے مرد کی جائیداد دے حصہ دینے کے اہتمام سے بھی خاندانی نظام میں سنجیدگی آ سکتی ہے۔پاکستانی شرعی عدالت کے جج جسٹس شفیع محمدی صاحب حلالہ کو حرام اور غیر قانونی قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود اس پر کسی قسم کی کوئی معاشرتی اگاہی مہم حکومت کے پلیٹ فارم سے نہیں چلائی گئی جس سے عام آدمی ان پڑھ، جاہل اور ہوس ذدہ مولویوں کی حلالے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائیں ۔حکومت معاشرہ سازی کے عمل کا نام ہے۔ معاشروں میں کثیر الانواع افراد کی درست سمتوں میں رہنمائی صرف حکومتی وژن ہی سے ممکن ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے 28برس قبل شہر بانو کیس میں ایک ایسے شوہر کو طلاق کے بعد بھی بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کا حکم دیا جو زندگی کے 40 برس اس کے ساتھ گزار چکی تھی اور شوہر نے بڑھاپے میں طلاق دے کر گھر سے بے گھر کر دیا۔ لیکن ہمارے ہا ں آج بھی زندگی کا سارا حسین وقت شوہر کی نظر کرنے کے باوجود شوہر بیوی کو غلطی سے بھی طلاق دے دے تو اس کے لیے واپسی کا سفر حلالے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی اس بیوی کا شوہر کے روپے پیسے پہ کوئی حق ہے جس کے ساتھ وہ اپنی جوانی گزار کے آئی ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے شمیم آراء بنا م ریاست اتر پردیش میں یہ بھی حکم جاری کیا کہ کوئی طلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک مصالحت کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔ علما ء نےتو عورت کوباندی سے زیادہ کا درجہ سے انکار کر دیا ہےافسوس اس بات کا ہے کہ ہماری عدالتیں بھی خوف ذدہ ہیں ۔ اسلام کی تشریح کا جو فریضہ مختلف کیسسز میں انڈین سپریم کورٹ سر انجام دے رہی ہیں پاکستان کی عدلیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو نصاب تعلیم کو از سر نو ترتیب دینا چاہیے اور وہ تمام امور جن سے آج کے ننھے طالب علم کا مستقبل میں واسطہ پڑنا ہے اس پہ اس کی ذہن سازی کی جائے۔ بچوں کو سیکھایا جائے کہ خاندان کی کیا حیثیت ہے؟ شوہر اور بیوی کے تعلق کی نوعیت کیسی ہے؟ تاکہ مجازی خدا کے تصور کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔یہ بھی سیکھانے کی ضرورت ہے کہ کامیاب شادی شدہ زندگی یہ نہیں جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ رہے ہوں بلکہ اصل کامیاب زندگی یہ ہے کہ جب میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بغیر رہنا پر امن نہ ہو۔ تربیت میں مولانا وحید احمد خان کی یہ بات شامل کی جائے کہ ہم سیکھیں کہ ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکهٹا ہوتے ہیں تو یہ دو متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے- عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے- یہ دونوں باتیں فطری ہیں- وه لازمی طور پر ہر عورت اور مرد کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں- اس معاملے میں کسی کا بهی کوئی استثنا نہیں۔ اب ان دونوں صفتوں کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا ان کا منفی پہلو- اگر ان صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وه انسانیت کے لئے خیر ثابت ہوں گے اور اگر ان کو منفی انداز میں استعمال کیا جائے تو انسانیت کے لئے شر بن جائیں گے۔انانیت (ego) کا مثبت یہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لئے جمنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وه موم کی مانند ہو جائے گا اور عزم و ہمت کے ساتھ وه کوئی کام نہ کر سکے گا- انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گهمنڈ کا مزاج پیدا ہو جائے۔ آدمی کو چاہئے کہ وه اپنی انانیت کو اس منفی حد تک نہ جانے دے،۔ورنہ وه تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا- اسی طرح عورت پیدائشی طور پر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اس صفت کے بهی مثبت اور منفی پہلو ہیں- اس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیاده ہوتا ہے- جو بلاشبہہ ایک خوبی کی بات ہے- اس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہو جائے- وه معاملات میں ضدی پن دکهانے لگے- یہ دوسرا پہلو اس صفت کا منفی پہلو ہے- اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیدا ہو جائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائده کهو دے گی-عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وه اپنے اس فطری مزاج کو سمجهیں- وه شعوری طور پر اس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے، وه منفی رخ اختیار نہ کرے- اس انضباط میں عورت اور مرد دونوں کے لئے کامیابی کا راز چهپا ہوا ہے- جہیز، نکاح ، طلاق اور وراثت کے اسلامی احکام کی درست تشریح اور ان پر نمایاں عدالتی فیصلوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔دنیا بھر میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کو بھی طالب علموں کو اگاہ رکھا جائے۔مسلک کو مذہب پہ حاوی کرنے کی کوشش کی مذمت کی جائے اور ریاست کو ماں کی حیثیت سے تمام مذاہب کے لیے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔میڈیا نے آج کے دور میں شعور اور آگاہی کا ایک انقلاب برپا کر دیا اسے اس ضمن میں آگے آنا چاہے۔ہم نے اپنی نسل کو دار الحرب اور دارلامن میں الجھا رکھا ہے اسلیے کسی نے انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو محض ایک ہندو ملک کی عدالتوں کی اسلام دشمنی سے ہی تعبیر کیا ہو گا۔لیکن آج جب ہمارے چراغ اندھیر ے بانٹ رہے ہیں تو پھر ان اندھیروں کی طرف منہ کرلینے میں کوئی حرج نہیں جو روشنی کی امید بنے ہوئے ہیں۔

Saturday 1 May 2021

>مقدمہ < || پاکستان اسرائیل تعلقات ۔۔۔۔سفارتی محاذ پہ ایک اور چیلنج

0 comments

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت

0 comments
حضرت علی رضی اللہ عنہ تاریخ کی انتہائی دلچسپ شخصیت ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کے بعدسب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ دورِ نبی ﷺ کی سب سے بہادر ترین شخصیت بھی تھے۔ خاندان عبدلمطلب کو اسلام کی دعوت دی تو کم سنی کے باوجود اپنے بلند پایہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم کا دست و بازو بننے کا اعلان کیا۔ہجرت کی رات نبی کریم ﷺ کے بستر پہ سوئے جس پہ کفار حملے کی غرض سے گھات لگائے ہوئے تھے۔ غزوات النبیﷺ میں اسلام کو سب سے زیاہ فائدہ آپ کی تلوار ذوالفقار نے ہی پہنچایا۔ہر جنگ میں نبی کریم ﷺ مبازرت کے لیے آپ کو بھیجتے اور آپ نے ہمیشہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا ۔ غزوہ الاحزاب میں عرب کے مشہور سورما عمروبن عبدوود کی پیدا کردہ سخت ترین صورت حال میں جب وہ خندق عبور کرنے کے بعد خیمہ نبی ﷺ کے سامنے نیزہ گاڑ کر مبازرت طلب کرنے لگا۔ اس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے۔ اس نے سپاہ اسلام کا للکار کر جنت کا مذاق بناتے ہوئے کہا کہ ' 'اے جنت کے دعویدارو کہاں ہو؟ کیا کوئی ہے جسے میں جنت کو روانہ کر دوں یا وہ مجھے دوزخ میں بھیج دے'' اور اپنی بات کی تکرار کرتا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ' 'کوئی ہے جو اس کے شر کو ہمارے سروں سے دور کرے؟''۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اجازت نہ دی اور دوسری اور پھر تیسری دفعہ پوچھا۔ تینوں دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی تیار ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اپنا عمامہ اور تلوار عطا کی اور فرمایا کہ '' کل ایمان کل کفر کے مقابلے پر جا رہا ہے' '۔ ایک سخت جنگ جس کے دوران گردو غبار چھا گیا تھا نعرہ تکبیر کی آواز آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ''خدا کی قسم علی نے اسے قتل کر دیا ہے''۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ' روزِ خندق علی کی ضرب تمام جن و انس کی عبادت سے افضل ہے'۔ بدر وحنین ہو یااحد کی جنگ یا پھر کئی روز سے خیبر کا ناقابل تسخیر مرھب آپ نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کو یقینی بنایا۔ آپ 21 رمضان المبارک سن 40 ہجری کو مسجد کوفہ میں عبدالرحمن ابن ملجم نامی ایک خارجی کے دوران نماز حملے میں زخمی ہونے کے بعد شہید ہو گئے۔ آپ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ یہاں ہم طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں: آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: "میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔ (تیسرے بیٹے) محمد بن حنفیہ سے فرمایا: "میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی؟ میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں (حسن و حسین) کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔ " پھر حسن و حسین سے فرمایا: "میں تم دونوں کو بھی محمد کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے۔" پھر خاص طور پر حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "میرے بیٹے! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، دین میں تفقہ حاصل کرنا، ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا۔" جب وفات کا وقت آیا تو پھر یہ (قرآنی آیات پر مشتمل) وصیت فرمائی: "بسم اللہ الرحمن الرحیم! یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں۔ حسن بیٹا! میں تمہیں اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا رب ہے۔ اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں جان دینا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دوسرے باہمی تعلق رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کرنا، اس سے اللہ تم پر حساب نرم فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، ان پر یہ نوبت نہ آنے دینا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مانگیں اور نہ ہی تمہاری موجودگی میں پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ سے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی ڈرنا کیونکہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں جن میں خاص کر نماز، زکوۃ، جہاد، امر بالمعروف کی نصیحت تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غرباء و مساکین اور غلاموں کے بارے میں خاص وصیت فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا: تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اپنے نبی کے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ۔۔۔پشت دکھانے، رشتوں کو توڑنے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور نافرمانی اور سرکشی میں کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہاری ، تمہارے اہل خاندان کی حفاظت کرے جیسے اس نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیتیں ایسی ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھر آتا ہے۔ ان وصیتوں میں جو خط کشیدہ الفاظ ہیں، ان پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی؟ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خاص کر اس بات کی تلقین فرمائی کہ صحابہ کرام کو ساتھ ملایا جائے، ان سے تفرقہ نہ پیدا کیا جائے اور انہی کے ساتھ رہا جائے خواہ اس کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت حسن نے یہی کیا اور قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ملت اسلامیہ قیامت تک فخر کرتی رہے گی۔ اپنے قاتل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا وصیت فرمائی، اسے بھی پڑھتے چلیے: بنو عبدالمطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا، اور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں (تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔) سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ حسن! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے بچو خواہ وہ باؤلے کتے ہی کا کیوں نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم امت کی مشترکہ مقدس ہستی ہیں جن کے شرف اور مقام و مرتبہ پہ کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ آپ کی شہادت کے دن امت آپ کی اپنے بیٹوں کو کی گئی وصیت پہ عمل کرنے کا عہد کرے تو یقینا معاشرہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔