Friday 12 November 2021

وزیر اعظم صاحب! خود کو تاریخ کے رحم و کرم پہ مت چھوڑیں

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ نے مکہ میں اسلام کی دعوت اسلام کا آغاز کیا تو انہی دنوں میں ایران اور روم میں جنگ لگ گئی۔ جس میں ایران نے روم زبردست شکست سے دوچار کیا اور کئی علاقے چھین لیے۔ اہل روم عیسائی ہونے کے ناطے اسی خدا کے وجود کے قائل تھے جس کا پرچار روز قریش مکہ کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوتا تھا ۔جبکہ اہل ایران مجوسی تھے اور آگ کی پوجا کرنے کے باعث اہل مکہ کے ہم مذہب مشرک تھے۔ ایران کی اس فتح کو اہل مکہ نے طعنہ و تشنیع کے طور پہ استعمال کیا کہ آپ کا خدا اپنے پیروکاروں کو بچا نہیں سکا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ روم میں بھی اس کا ذکر کیا اور پیشگوئی کی کہ اہل روم دس سال سے کم عرصہ میں دوبارہ غالب آ جائیں گے۔ اسلام کی حقانیت پہ یہ پیشگوئی ایک بہت بڑی دلیل تھی۔ کیونکہ بظاہر ایسا ہونا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔ ہرقل جب روم کا قیصر بنا تو اس نے اپنی بکھری ہوئی سلطنت کو سنبھالا اصلاحات کیں اور دس سال سے بھی کم عرصہ میں ایران کو شکست دے کر قرآن کہ یہ پیشگوئی پوری کر دی ۔مورخین کا خیال ہے کہ یہ ناممکن فتح حاصل کرنے کے بعد ہرقل اگر مر جاتا تو وہ اپنے سے قبل اور اپنے سے بعد کی تاریخ کا سب سے کامیاب بادشاہ کے طور پہ جانا جاتا۔ لیکن اس کی زندگی کے آخری ایام شراب نوشی کی کثرت اور بد انتظامی کی نظر ہوگئے۔ جس کے باعث اس کی وہ عظیم ناممکن کامیابی بھی گہنا گئی۔ 2013 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو عمران خان ان کے لیے ایک مسلسل درد سر ثابت ہوا۔ پہلے انتخابی دھاندلی اور بعد میں پانامہ پیپرز کی آڑ میں وہ پانچ برس تک سڑکوں پہ رہے اور رائے عامہ کو منظم کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے جلسوں کے دوران ایک مثالی اسٹینڈ لیا اور عوام کے سامنے ایک خیالی طرز حکومت کا امیج کھڑا کیا۔ انہوں نے حکومت کے ہر کام پہ تنقید کی۔ نوجوان نسل اور ایلیٹ کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ پولنگ بوتھ پہ بھی لانے پہ کنوینس کیا۔ جس کا اظہار الیکشن کے دوران بلند ترین ٹرن آؤٹ کی صورت میں ہوا۔ اس طرح نوجوان نسل عمران خان پہ یقین کر بیٹھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دور اقتدار ہی ہر مسئلہ کی وجہ ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان حکومت میں آئے تو ان پہ اقتدار کی زمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان توقعات کا ہمالیہ بھی تھا جو انہوں نے خود اپنے ساتھ وابستہ کروا رکھیں تھیں۔ انہوں نے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ حکمران کا چور ہونا بتایا ۔لیکن اپنے دور حکومت میں ان کی قیمتوں کو کنٹرول نہ کر سکے۔ دھرنوں کے دوران وہ خود نوجوانوں کا وزیراعظم کہہ کر سوال پوچھتے کہ کیا آپ وزیراعظم کشکول لیکر بھیک مانگتا ؟ اس پہ مذید فرماتے کہ آپ کا وزیراعظم خود کشی کر لے گا لیکن بھیک نہیں مانگے گا لیکن تین سالوں میں اگر کسی چیز میں تسلسل ہے تو وہ آئی ایم ایف سے قرضوں کی وصولی میں ہے۔ انہوں نے گورنر اسٹیٹ بنک اور مشیر خزانہ براہ راست آئی ایم ایف کے مقرر کروائے جو تاریخ میں پہلی بار پریس کانفرنس میں مہنگائی کے فوائد عوام کو گنواتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے سامنے پنڈورا پیپرز آئے جن میں کئی وزرا اور ملٹری آفیسروں کے نام آئے تو وزیر اعظم صاحب نے پانامہ پیپرز والے خان صاحب کی زیارت عوام کو نہیں کروائی بلکہ اپنی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے کر سطحی نوعیت کے مسائل میں میڈیا کی توجہ مبذول کروا کر اسے پس پشت ڈال دیا۔ جنرل (ر)عاصم باجوہ کی امریکہ میں کمپنیوں کی موجودگی میں کسی تفتیش کی ضرورت کو اس لیے محسوس نہ کیا کہ وزیر اعظم نے اپنے مشیر خاص سے ذاتی وضاحت لے لی اور اسے ہی کافی سمجھا۔ انہوں نے عوام کو یقین دلا رکھا تھا کہ ان کے پاس ماہرین کی دو سو افراد پہ مشتمل ٹیم موجود ہے ۔جو حالات کو راتوں رات بدل دیں گے لیکن بعد ازاں انہوں نے وزراء کو جس طرح تبدیل کیا ان کے دعویٰ کی قلعی کھل گئی کہ ان کے پاس وزیر خزانہ وزیر داخلہ سے لیکر انفارمیشن منسٹر تک کے وزیروں کا شدید کال ہے۔ خان صاحب کا آئے دن وزیر تبدیل کرنا یا انہیں عہدوں سے ہٹانا ویسا نہیں جیسا وہ بیان کرتے ہیں کہ کپتان بہتر سمجھتا ہے کہ کس وزیر کو کس پوزیشن پہ کھلانا ہے اور کسے ڈراپ کرنا ہے بلکہ پارلیمانی نظام اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ کام کرتا ہے جس میں ایک وزیر کا ناکام ہونا پوری کابینہ کی ناکامی ہے۔ اور کسی ایک وزیر کا اچھا کام کرنا پوری کابینہ جس کا وزیراعظم سربراہ ہوتا کی نیک نامی کا سبب بنتا۔ ان کا وزراء کو تبدیل کرنا یا ان کے قلمدان تبدیل کرنا خود اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ جو کہ گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے درجنوں بار پیش کی ہے ۔ عمران خان 92 کے ورلڈ کپ کی ماند اب بھی اسی بات کے منتظر ہیں کہ اگر ویسٹ انڈیز آسٹریلیاکو ہرا کو خود نیوزی لینڈ سے ہار جائے تو پاکستان کا کوئی چانس بن سکتا ہے۔ کرونا کی وبائی مرض کے دوران بین الاقوامی امداد کا انتظار حکومت کو پہلے دن سے تھا لیکن حالات اس درجے کے خراب نہ ہو سکے تو یہ موقعہ بھی قدرت نے فراہم نہ کیا۔ اشیا خورد نوش کی قیمتوں پہ حکومتی کنٹرول کا نہ ہونا، عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ، انڈسٹری کا پہیہ نہ چل سکنا اور اب ڈینگی پہ حکومت کی سست روی حکومت کی ناکامی کی چند مثالیں ہیں جن پہ حکمران جماعت کو انتخابات میں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حزب مخالف والے کپتان کی حکمران کپتان نے ڈٹ کر مخالفت کی ہے۔ ہر اس بات سے انکار کیا جس کا وعدہ حزب مخالف کا کپتان کیا کرتا تھا۔ 2013میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے ن لیگ کو لوڈ شیڈنگ ورثے میں ملی تھی لیکن اس نے جس طرح لوڈ شیڈنگ پہ کنٹرول کیا وہ قابل تعریف تھا۔ ڈینگی کی وبا پہ قابو پانا بھی دنیا بھر میں نیک نامی کا باعث بنا۔ انڈسٹری کے پہیے کو متحرک کیا موٹر ویز کا ملک بھر میں جال بچھایا۔ ایسے میں عمومی تاثر کے مطابق ن لیگ کو شکست دینا ناممکن تھا۔لیکن عمران خان نے اسے شکست دے کر ہر قل کی طر ح نا ممکن کو ممکن بنا دیا ۔ان حالات میں بلکل ہرقل کی مانند عمران خان صاحب اگر پچھلی حکومت کو اپنی کامیاب تحریک کے ذریعے ختم کرنے کے بعد اگر منظر سے ہٹ جاتے تو وہ اپنے سے قبل اور اپنے سے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک کامیاب رہنما کے طور پہ جانے جاتے ۔وہ تاریخ میں امر ہو جاتے۔ بھٹو تو شاید کبھی مر جائے لیکن خان صاحب کبھی نہ مرتے۔ لیکن خان صاحب نے ہرقل بننا پسند کیا اب خود تاریخ کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات تو پہلے دن سے طے تھی کہ ان میں انتظامی صلاحیتوں کا شدید فقدان ہے لیکن اب وہ اپنی ایمانداری کی قلعی بھی کھولتے جا رہے ہیں ۔اپنے کرم فرماؤں اور ہمنواؤں کی شدید کرپشن پہ خاموشی اور حوصلہ افزائی ان کی شوکت خانم کے پرجیکٹ پہ بھی انگلیاں اٹھانے کا باعث بنے گی۔فارن فنڈنگ کیس میں عدالت سٹے آرڈ ر حاصل کر نا اور شوکت خانم ہسپتال کے فنڈز کا کبھی آڈٹ نہیں چھپا لوگ پوچھیں گے ہمارا دیا گیا صدقہ کہاں گیا۔تب خان صاحب کے پاس کوئی منی ٹریل نہیں ہو گی اور لوگ انہیں تاریخ کا بھیانک کردار سمجھ کر فراموش کرنے کو ترجیح دیں گے۔