Wednesday 8 June 2022

بے شک ہر گھڑی آپ کا ذکر پہلے سے بلند کردیا جاتا ہے

0 comments
آج 8 جون ہے۔ سن عیسوی کے اعتبار سے آج رسالت مآب نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال ہے۔ ہمارے ارد گرد ایک بار پھر غیر مسلم اقوام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بدگمان ہو رہی ہیں۔ ان کی یہ بدگمانی ان کی کم علمی اور تحقیق کے مزاج سے عدم شناسی کے سوا کچھ نہیں اگر وہ ایک مرتبہ بلا تعصب تحقیق سے پیغمبر اسلام کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں تو وہ لازمی اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے۔ ذیل میں چند ایسے جید مستشرقین کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں جنھوں نے اسی راستے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اپنے نقط نظر میں تبدیلی لائی۔ امریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔ تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور لیکچرز میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سرور اعظم تھے۔ 15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ بھارت کے عظیم سیاسی سماجی رہنما مہاتما گاندھی لکھتے ہیں کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتا ہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتا ہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتا ہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔۔۔۔وہ محمد ہیں۔۔۔۔جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“ ابوبکر صدیق (ایم فل پولیٹکل سائنس، ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی لاہور)