Wednesday 16 August 2023

جناح کا راست اقدام جس نے ہندوستان کو خون میں نہلا دیا

0 comments
آزادی اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے پھر ہماری آزادی نے المیے کی شکل کیسے اختیار کی؟ برطانیہ نے برصغیر میں مسلم دور حکومت کا خاتمہ کیا پھر برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہندو مسلم بلا تفریق مذہب آزادی کی جدو جہد میں شامل رہے۔ پھر ہماری دشمنی اور نفرت کا رخ برطانیہ کی بجائے آپس میں ہندو مسلم دشمنی کی طرف کیوں ہے؟ ہندوستانی معاشرے میں سبھی مذہب کے لوگ آپس میں ہم آہنگی سے رہ رہے تھے ان میں انتشار اور فسادات کے واقعات کے پیچھے برطانیہ کی ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی کار فرما تھی۔ پھر تقسیم ہندوستان کے بعد قتل و غارتگری اور لوٹ مار کے واقعات کی وجوہات کیا تھیں؟ ہمارا مطالعہ پاکستان کا نصاب اس پہلو پہ نہ صرف تو روشنی ڈالنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا بلکہ اس کے محرکات کو چھپانے کی مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے۔ چلیں اس سوال کی کھوج میں نکلتے ہیں۔ 1945 میں ہندوستان میں جدا گانہ بنیادوں پہ عام انتخابات ہوئے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے سبھی مسلم اور آل انڈیا نیشنل کانگریس نے سبھی غیر مسلم نشستوں پہ کامیابی حاصل کی تو ہندوستان کا مذہبی بنیادوں پہ تقسیم ہونا طے ہو گیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے مابین حکومت سازی کے معاملات طے کرنے کے لیے پہلے ویول پلان اور بعد میں کابینہ مشن پلان پیش کیا گیا۔ کابینہ مشن پلان میں یہ طے پایا تھا کہ حکومت میں شمولیت کی دعوت اسی سیاسی جماعت کو دی جائے گی جو پلان کو مکمل طور پہ تسلیم کر لے گی۔ ابتدا میں کیبنٹ مشن پلان پر کانگرس اور مسلم لیگ کا رد عمل مختلف رہا۔ 6 جون 1946ء کو مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو منظور کر لیا، کیونکہ اس میں ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے آثار موجود تھے۔ اس میں صوبوں میں تین گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا جنہیں دس سال کے بعد وفاق سے علیحدگی کا اختیار دیا گیا تھا اس طرح دس سالوں کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پہ قائم صوبوں پہ مشتمل پاکستان بنتا نظر آ رہا تھا۔ پلان نے ہندوستان کے گیارہ صوبوں کو اس طرح تقسیم کیا۔ گروپ الف میں ہندو اکثریت صوبے اُڑیسہ، بہار، بمبئی، سی پی، مدراس اور یو۔ پی۔ گروپ ب میں شمال مغرب میں مسلم اکثریت کے صوبے پنجاب، صوبہ سرحد اورسندھ جبکہ گروپ ج میں شمال مشرق میں مسلم آبادی کے صوبے بنگال اور آسام شامل کیے گئے۔ پلان کی ایک شق کے مطابق کل ہند یونین کے آئین اور ہر گروپ کے آئین میں ایک شق ایسی ہوگی جس کے تحت کوئی بھی صوبہ اگر چاہے تو ہر دس سال کے بعد اپنی قانون ساز اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر آئین کی نکات یا شقوں پر ازسرنو غور کرنے کا مجاز ہوگا۔ شق ہذا کے مطابق تمام صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ دس سال گذرنے کے بعد وہ انفرادی طور پر یا گروپ کی صورت میں اگر چاہیں، توکل ہندوستان یونین سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ کانگریس نے پلان کو قبول کرنے سے ہچکچاہٹ ظاہر کی کیوں کہ وہ اکھنڈ بھارت کی قائل تھی اور ہندوستان کو تقسیم کرنے کی مخالف تھی۔ کانگریس کا یہ موقف تھا کہ یہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے کہ وہ کابینہ مشن پلان کے حصوں کی حتمی منظوری دے۔ اس طرح انہوں نے یہ واضح کیا پارلیمنٹ بعد ازاں گروپ بندی کو ختم کر سکتی ہے۔ دوسری طرف کانگرس نے پس و پیش سے کام لیتے ہوئے بالآخر 25 جون 1946ء کو کیبنٹ مشن پلان کے ایک حصے کو مشروط طور پر منظور کر لیا جو کہ طویل المدتی تھا جس کے تحت صوبوں کو گروپوں میں تقسیم اور آل انڈیا یونین کا قیام عمل میں لانا تھا جبکہ دوسرے حصے کو جس کے تحت ایک عارضی حکومت کا قیام عمل میں لانا تھا اس کو نامنظور کر لیا۔ برطانوی سرکار کانگریس کے بغیر حکومت سازی کو عمل کو تشکیل دینے سے گریز کر رہی تھی اور کانگریس اپنی شرائط پہ اس عمل میں شریک ہونے پہ زور دے رہی تھی۔ اس طرح حکومت سازی کے تینوں فریقوں کے مابین خوب بدگمانی پیدا ہو چکی تھی۔ اس صورت حال میں انگریز سرکار کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کو عبوری حکومت بنانے کی پیشکش کرتے، کیونکہ مسلم لیگ نے کابینہ مشن پلان کو مکمل طور پر قبول کر لیا تھا، لیکن افسوس کہ انگریز سرکار ایسا نہ کر سکی انگریز کی اس بدعہدی کے نتیجے میں مسلم لیگ نے احتجاجاً 29 جولائی 1946ء کو نہ صرف اپنی قبولیت (کابینہ مشن پلان کی قبولیت) واپس لی بلکہ راست اقدام لینے کا بھی فیصلہ کیا اور پورے ہندوستان کی سطح پر ہڑتال کرانے کے لیے 16 اگست 1946ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔ اس موقع پر کانگرس پنڈتوں نے ایک نیا سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے 10 اگست 1946ء کو کابینہ مشن پلان کے دونوں حصوں کو منظور کر لیا۔ اس سیاسی پیش رفت کے بعد وائسرائے ہند نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 12 اگست 1946ء کو کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو سے عبوری حکومت کے قیام سے متعلق تجاویز طلب کیں۔ مسلم لیگ اقتدار سے باہر ہو گئی تھی اسے ایک بار پھر 1937 میں قائم ہونے والی کانگریسی وزارتوں کا خوف ڈراؤنے کی طرح نظر آنے لگا تھا۔ مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن کے طور پہ قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس اعلان کے بعد ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا ایک لافانی سلسلہ شروع ہوا جو علاقے اور شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان میں کلکتہ، بمبئی ، آگرہ ، احمد آباد، نواں کلی، بہار اور دہلی کے نام قابل ذکر ہیں۔ مسلم لیگ نے 16 دسمبر 1946 کو ہڑتال کا اعلان کیا تھا بنگال میں مسلم لیگ کی حمایت سے حسین شہید سہروردی وزیر اعلی تھے۔ جنہوں نے ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے ہندؤ دوکانداروں اور تاجروں کو کام مکمل طور پہ بند کرنے سختی حکم دیا جسے تسلیم نہ کرنے کی صورت میں سخت نتائج کی دھمکی بھی دی۔ کلکتہ میں ہندو آبادی اکثریت میں تھی اور نکالے جانیوالے جلوس کی قیادت خود وزیر اعلی سہروردی کر رہے تھے۔ پیش آنے والے واقعات کو محتاط انداز میں بنگال کے گورنر نے وائسرے کو لکھی جانیوالی چھٹی میں اس طرح بیان کیا۔ ان کے مطابق مسلم لیگ نے کلکتہ میں اوچر لونی کی یادگار کے پاس شام چار بجے جلسے کا اہتمام کر رکھا تھا جس سے وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کو خطاب کرنا تھا۔ تاہم صبح دس بجے ہی سے پولیس ہیڈ کوارٹر میں کشیدگی کی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں۔ شہر میں مسلم لیگی کارکن زبردستی دکانیں بند کرا رہے تھے۔ جلسہ گاہ کی طرف آنے والے بیشتر افراد نے لوہے کی سلاخیں ، لاٹھیاں اور بلم اٹھا رکھے تھے۔ مسلم لیگی وزیروں نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کے لیے پٹرول کے کوپن بڑی تعداد میں تقسیم کیے تھے تاکہ ہندوﺅں کی دکانوں اور مکانات کو نذر آتش کیا جا سکے۔ دس ہزار کارکنوں کے لیے ایک مہینے کا راشن جمع کر لیا گیا تھا۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سہروردی اور ناظم الدین نے بیک وقت امن اور فساد کی باتیں کیں۔ سہروردی کا ایک جملہ یہ تھا کہ وہ ’پولیس اور فوج کو مداخلت نہیں کرنے دیں گے‘۔ اس بظاہر سادہ جملے کا مشتعل اور ان پڑھ ہجوم نے یہ مطلب لیا کہ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہو گا۔ مرنجاں مرنج ہونے کی شہرت رکھنے والے خواجہ ناظم الدین نے حاضرین کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ’صبح سے اب تک ہونے والے لڑائی جھگڑے میں مجروح ہونے والے تمام افراد مسلمان ہیں‘۔ جلسہ ختم ہوتے ہی تقریباً ایک لاکھ نفوس کا ہجوم کلکتہ کی تنگ گلیوں اور گنجان علاقوں میں پھیل گیا۔ دن ختم ہونے سے پہلے چار سے چھ ہزار تک غیر مسلم شہری مارے جا چکے تھے۔ وزیراعظم سہروردی خود پولیس کے کنٹرول روم میں براجمان تھے۔ امریکی ہفت روزہ ٹائم کی 22 اگست1946ء کی رپورٹ کے مطابق ’کلکتہ کی گلیاں لاشوں سے اٹ چکی تھیں۔ نالیاں انسانی لہو اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضا سے بند ہو چکی تھیں۔ دریائے ہگلی میں پھولی ہوئی لاشیں تیر رہی تھیں۔ ہاتھ گاڑی کھینچنے والے غریب گاڑی بانوں کی لاشیں ان کے تانگوں پر آڑی ترچھی پڑی تھیں۔ جن عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی ان کی ادھ جلی لاشوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ ‘ابتدائی مار دھاڑ کے بعد فسادات کا سلسلہ دوطرفہ ہو گیا۔ اب مرنے والوں میں ہندو مسلم کی تمیز نہ رہی۔ ڈائریکٹ ایکشن ڈے سے حاصل ہونے والے کانفیڈنس نے حالات کو نفرت سے بھر دیا تھا جس کا کھلا مظاہر نواکھلی میں ہوا۔ جہاں ہندو آبادی کا قتل عام 10 اکتوبر کوجاگری لکشمی پوجا کے دن شروع ہوا اور تقریباً ایک ہفتہ تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 5000 افراد مارے گئے، سیکڑوں ہندو خواتین کی عصمت دری کی گئی اور ہزاروں ہندو مردوں اور عورتوں کو زبردستی اسلام قبول کیا گیا۔ تقریباً 50,000 سے 75,000 زندہ بچ جانے والوں کو کومیلا، چاند پور، اگرتلہ اور دیگر مقامات پر عارضی ریلیف کیمپوں میں پناہ دی گئی۔ تقریباً 50,000 ہندو مسلمانوں کی کڑی نگرانی میں متاثرہ علاقوں میں محصور رہے جہاں انتظامیہ نام کی کوئی شے نہ تھی۔ کچھ علاقوں میں ہندوؤں کو اپنے گاؤں سے باہر سفر کرنے کے لیے مسلم رہنماؤں سے اجازت نامہ لینا پڑتا تھا۔ زبردستی مذہب تبدیل کرنے والے ہندوؤں کو تحریری اعلانات دینے پر مجبور کیا گیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ اب آگ پوری طرح پھیل چکی تھی۔ سال کے سب سے بڑے فسادات 27 اکتوبر سے 6 نومبر تک ہوئے، اس عرصے کے دوران اس مہینے کے شروع میں ہونے والے نواکھلی فسادات کے بدلے میں ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی۔ہلاکتوں کی تعداد کے تخمینے میں کافی فرق تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ کو دیے گئے ایک بیان میں ہلاکتوں کی تعداد 5000 بتائی گئی ہے۔ معروف انگری جریدے سٹیٹس مین نے ہلاکتوں کی تعداد کا تخمینہ 7,500 اور 10,000 کے درمیان لگایا تھا۔ جب کہ انڈین نیشنل کانگریس نے اسے 2,000 اور مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح نے کہا کہ 30,000 لوگ مارے گئے تھے۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 5 نومبر کو مہاتما گاندھی جو کلکتہ میں تھے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بہار میں تشدد 24 گھنٹوں کے اندر بند نہ ہوا تو وہ مرنے تک بھوک ہڑتال کر دیں گے۔ ان کے بیان کو کانگریس لیڈر راجندر پرساد نے قومی سطح پر نشر کیا۔ مسلم لیگ کے ایک رہنما محمد یونس نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ بقر عید کا تہوار جو کہ 5 نومبر کو ہوا، یوم سوگ کے طور پر منائیں۔ 5 نومبر کو عبوری حکومت کے سربراہ جواہر لال نہرو نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں اس پاگل پن کو ختم کرنا چاہیے، ہم بعد میں بحث کر سکتے ہیں جو کچھ ہوا اور جو کچھ بہار صوبے کے کچھ حصوں میں ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے اور میں یقین نہیں کر سکتا کہ انسان اس طرح کا برتاؤ کر سکتا ہے۔" اسی طرح کے حالات کا دیگر جگہوں پہ بھی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جہاں ہندو مسلم ایک دوسرے کے وجود کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اب ایسے حالات میں جہاں دونوں مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ایک دم سے برطانوی عمل داری کا اٹھ جانا درندوں کے گلے سے پٹہ نکالنے کے مترادف تھا پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ 1946 کے ان فسادات نے وہ بنیاد فراہم کی جس پہ ہندو مسلم نفرت کی عمارت تعمیر کی گئی پھر دونوں جڑواں ریاستوں نے برطانیہ کو اپنا نجات دہندہ اور آپس میں ایک دوسرے کو دشمن قرار دیا۔ تاریخ میں جو ہوا وہ واپس نہیں لایا جا سکتا لیکن انیوالی نسلوں تک حقائق پہنچا کر ہندو مسلم دشمنی کو کم سطح پہ لایا جا سکتا ہے جس کی بھینٹ اس وقت پونے دو ارب لوگ چڑھ رہے ہیں۔

Wednesday 8 June 2022

بے شک ہر گھڑی آپ کا ذکر پہلے سے بلند کردیا جاتا ہے

0 comments
آج 8 جون ہے۔ سن عیسوی کے اعتبار سے آج رسالت مآب نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال ہے۔ ہمارے ارد گرد ایک بار پھر غیر مسلم اقوام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بدگمان ہو رہی ہیں۔ ان کی یہ بدگمانی ان کی کم علمی اور تحقیق کے مزاج سے عدم شناسی کے سوا کچھ نہیں اگر وہ ایک مرتبہ بلا تعصب تحقیق سے پیغمبر اسلام کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں تو وہ لازمی اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے۔ ذیل میں چند ایسے جید مستشرقین کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں جنھوں نے اسی راستے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اپنے نقط نظر میں تبدیلی لائی۔ امریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔ تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور لیکچرز میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سرور اعظم تھے۔ 15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ بھارت کے عظیم سیاسی سماجی رہنما مہاتما گاندھی لکھتے ہیں کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتا ہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتا ہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتا ہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔۔۔۔وہ محمد ہیں۔۔۔۔جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“ ابوبکر صدیق (ایم فل پولیٹکل سائنس، ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی لاہور)

Friday 27 May 2022

قبل از اسلا م کا عرب معاشرہ بمقابلہ بعد از اسلام کا ہمارہ معاشرہ

0 comments
ہمارے ہاں پڑھائی جانیوالی تاریخ میں عرب کی تاریخ کو اسلام سے قبل والے زمانے کو زمانہ جاہلیت کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ بلاشبہ عربوں میں ایسی خرابیاں تھیں جنہیں اسلام نے آکر نہ صرف درست کیا بلکہ بعض کو ختم بھی کر دیا۔ ہم نے عربوں کی ان صفات کا کبھی جائزہ نہیں لیا جو اللہ کی طرف سے کسی واضح ہدایت کی عدم موجودگی کے باوجود ان میں موجود تھیں۔ ہم جس زمانے میں میں رہ رہے اگر اسے قبل از اسلام عرب معاشرے سے موازنہ کریں تو ہمیں وہ معاشرہ ہرگز جاہلیت پہ مبنی معاشرہ نظر نہیں آئے گا۔ عرب قبائل مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے ۔ اس کے لیے انہیں کسی وحی کا انتظار نہیں کرنا پڑا ۔ اس کی دو مثالیں جو بڑی آسانی سے میسر آ سکتی ہیں وہ حرب فجار اور حلف الفضول ہیں ۔ جنگ فجار چار جنگوں کا مجموعہ ہے۔ یہ جنگیں چونکہ ان مہینوں میں لڑی گئیں تھیں جن میں لڑائی حرام تھی اس لیے انہیں حرب فجار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے بیسویں سال عکاظ کے بازار میں قریش وکنانہ اور قیس عیلان کے درمیان ماہ ذی قعدہ میں لڑی گئی ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ براض نامی بنو کنانہ کے ایک شخص نے قیس عیلان کے تین آدمیوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کی خبر عکاظ پہنچی تو فریقین بھڑک اٹھے اور لڑ پڑے۔ اس جنگ میں قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ پہلے پہر کنانہ پر قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن دوپہر ہوتے ہوتے قیس پر کنانہ کا پلہ بھاری ہوا چاہتا تھا کہ اتنے میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں۔ جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی۔ جنگ ختم کردی گئی اورجو شر وعداوت پیدا ہوگئی تھی اسے نیست ونابود کر دیا گیا۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے گئے تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے اس جنگ کے بعد اسی حرمت والے مہینے ذی قعدہ میں حلف الفضول پیش آیا۔ چند قبائل قریش ، یعنی بنی ہاشم ، بنی مُطّلب ، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے۔ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا اور آپس میں عہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔ اس معاہدے کی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے ، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ کرم وسخاوت اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی ۔ایسی سنگین حالت کے باوجوداس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔ اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کردیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَاوِین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے : ترجمہ:''میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا ، نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ ا ور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔ '' ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا ، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ‌ مِن نَّفْعِهِمَا (۲:۲۱۹ ) ''ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ '' وفائے عہد بھی دَورِ جاہلیت کے اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اوّلاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ سموأل کا واقعہ یہ ہے کہ امرؤ القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا ، اس نے انکار کردیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند ہوگیا۔ سموأل کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی مگر سموأل انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔ خودداری وعزتِ نفس اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی، وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی ، شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔ عزائم کی تنفیذاہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔ حلْم وبردباری اور سنجیدگی یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی ، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔ بدوی سادگی یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری وبدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔ اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاق ِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا اِستقصاء مقصود نہیں۔ یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شر وفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے لیکن یہ فی نفسہٖ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔اس کے برعکس ہمارے پاس اسلام کی واضح ہدایت موجود ہے ہم عشق رسول کے سب سے بڑھ کر دعوی دار بھی ہیں اس کے باوجود ہم نے کبھی اجتماعی طور پہ اپنا وزن مظلوم کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔ ہم بخیل بھی ہیں اپنا مال کسی ضرورت مند پہ خرچ کرنے میں نمائش کا پہلو پہلے دیکھتے ہیں ۔ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ہمارے بازاروں کی بدنمائی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں ۔ غرض کہیں بھی ہم ذاتی حیثیت یا اجتماعی طور پہ خود کو اسلام کے پیرامیٹرز میں طول کر دیکھ لیں شرمساری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ پھر قبل از اسلام کے عرب کسی وحی کے ذریعے ہدایت کے بغیر زیادہ جاہل تھے یا اللہ کی واضح ہدایت ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ زیادہ جاہل ہے۔ ابو بکر صدیق (ایل ایل بی ، ایم فل پولیٹیکل سائنس پنجاب یونیورسٹی لاہور)

Monday 18 April 2022

غزوہ بدر (عجز اور تکبر کا پہلا معرکہ)

0 comments
17 رمضان غزوہ بدر کی مناسبت سے اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں عجز اور تکبر آپس میں آمنے سامنے ہوئے اور تکبر کی ناک خاک آلود ہوئی۔ یہ جنگ محض تاریخ کے اوراق میں ہی محفوظ نہیں بلکہ خالق کائنات نے اسے آخری منبع رشد و ہدایت میں بھی ایک سے زائد جگہوں پہ بیان کیا ہے۔ قرآن کریم کی سورت آل عمران کی آیات 12 13 اور 123 سے 127 میں، سورت نساء کی آیات 77 اور 78 میں اور سورت انفال کی آیات 1 سے 19 تک اور 36 سے 51 تک نیز آیات 67 سے 71 تک، میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کو یوم الفرقان کا نام دیا گیا ہے۔ ان آیات کریمہ میں مشرکین کے لاحاصل اقدامات کو سابقہ اقوام ـ بالخصوص آل فرعون ـ سے تشبیہ دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس جنگ میں کفار و مشرکین کی شرکت شیطان کے مکر و فریب کا نتیجہ تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ ہوا کہ اب جنگ ناگزیر ہے تو آپ (ص) نے لشکر میں موجود انصار اور مہاجرین سے مشورہ طلب کیا۔ مہاجرین میں سے حضرت مقداد نے عرض کیا: ” ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے یہ سن کر آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ مہاجرین کی بجائے انصار سے رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ: ” یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔ “ بدر کے مقام پہ پہنچ کر جس جگہ کو پڑاؤ کے لیے منتخب کیا اس کی بابت جنگ کی حکمت عملی کے ماہر صحابی حضرت حباب بن المنذر نے دریافت کیا یا رسول اللہ کیا اس جگہ کو آپ نے وحی الٰہی کے تحت منتخب کیا ہے یا اپنی رائے سے؟ نبی کریم (ص) نے فرمایا اپنی رائے سے۔ جناب حباب (رض) نے کہا یہ جگہ مناسب نہیں۔ اگر ہم قریش کے لشکر کے قریب والے کنوئیں پہ پڑاؤ ڈالیں اور باقی کنوئیں بند کر دیں تو جنگ شروع ہونے سے قبل ہمیں مخالف لشکر پہ برتری حاصل ہو جائے گی کیونکہ مخالف لشکر پانی کی رسد میں تنگی محسوس کرے گا۔ نبی کریم (ص) نے مشورہ قبول کر لیا۔ اس سے یہ نقطہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹیکنیکل مشاورت پہ تقدیس کو ترجیح نہیں دی جانی چاہیے۔ جنگ سے قبل رات بھر نبی کریم (ص) اپنے خیمے میں سجدہ ریز رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے۔ جو دعا تاریخ میں نقل ہوئی ہے اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نبی کریم (ص) کس قدر اپنے مشن کو لیکر متفکر تھے آپ نے اللہ سے دعا کی: "اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی." جنگ شروع ہوئی تو عرب رواج کے مطابق اہل قریش کے تین معزز سرداروں عتبہ ، شیبہ اور ولید نے میدان جنگ میں اپنے مخالف مبازرت طلب کی۔ نبی کریم (ص) نے مبازرت قبول کی اور ان کے مقابلے پہ اپنے سب سے عزیر چچا زاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ، اپنے دوسرے چچا زاد عبیدہ بن حارث اور اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو بھیجتے ہوئے کمال کا اصول بیان فرما دیا کہ تحریک اس وقت کامیاب ہوتی جب مشکل ترین وقت میں اپنے سمیت اپنے پیاروں کو سب سے آگے کیا جائے ناکہ کامیاب ہونے کے بعد۔ جو لیڈرز خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ پناہ گاہوں میں رکھ کر پیروکاروں سے قربانی کا تقاضا کریں ان کے مقاصد اخلاص سے خالی ہوتے ہیں۔
جنگ نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ 14 مسلمانوں کے مقابلے میں 70 کفار واصل جہنم ہوئے جن میں سے 38 کو صرف حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے قتل کیا۔۔ قریب قریب سبھی بڑے بڑے سردار جن میں عتبہ ، شیبہ، ولید، امیہ بن خلف ابوجہل جیسے نبی کریم (ص) نے اپنی امت کا فرعون قرار دیا اور اس جنگ کا اصل محرک وہ ہی تھا اسی پہلی جنگ میں مارے گئے۔ یہ جنگ نئے دینی رشتوں کے قیام اور پرانے خونی رشتوں کو منہدم کرنے پہ مہر ثبت کرتی ہے کیونکہ اس جنگ میں بھائی اپنے اپنے بھائی سے برسرِ پیکار تھا۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے ہاتھوں آپ کے سگے ماموں واصل جہنم ہوئے۔ 70 قیدیوں کو مدینہ لایا گیا۔ ان کے مستقبل پہ ایک مرتبہ پھر مشاورت کے لیے صحابہ کا اجلاس طلب کیا گیا۔ حضرت سعد بن عبادہ نے مشرکین مکہ کو جلا دینے کی تجویز دی اسی طرح حضرت عمر نے کہا کہ ہر مہاجر اپنے مشرک عزیز کو قتل کردے تاکہ اہل مکہ واضح پیغام موصول کر سکیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کے برعکس نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ انہیں فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ اپنے مشورے کی دلیل یہ بیان کی کہ ایک تو اس سے مسلمانوں کی موجودہ مالی مشکلات میں کمی واقع ہوگی دوسرا غالب امکان ہے کہ ان میں سے کچھ ایمان لے آئیں اور اسلام کی طاقت کا باعث بنیں۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رائے حضرت ابوبکر کے حق میں ڈال دی۔ ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا

Saturday 4 December 2021

تقسیم ہندوستا ن کے وقت کشمیر کا حصول کسی ملک کی ترجیح نہ تھا۔

0 comments
تاریخ مسخ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ ہم پانی غلطیوں کا ٹھیک سے تخمینہ نہیں لگا پاتے۔ کشمیر کے مسئلے نے ہمیں 75 سال سے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ لیکن ہم نے کبھی اس پہ کھل کر اپنی غیر سنجیدگی کو تسلیم نہیں کیا۔ نہ ہی مطالعہ پاکستان نئی نسل کو یہ بتا پائی کہ کشمیر کو مسئلہ بنانے میں ہم نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر پہ بھارتی قبضہ کی داستان کے پیچھے ہماری عدم دلچسپی کارفرماں تھی ۔ ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت کیا کشمیر ہماری ترجیح تھا؟ کیا کشمیر کو میدان جنگ کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پہ ہم نے کھو دیا؟ مسئلہ کشمیر کی ناکامی میں سب سے متحرک کردار کون سا ہے؟ بھارتی صحافی کلدیپ نئیر اپنی کتاب Beyond the Lines—An Autobiography میں لکھتے ہیں کہ سردار پٹیل کا یہ مسلسل نقطہ نظر رہا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے ۔وہ لکھتے ہیں کہ نیئر لکھتے ہیں کہ میرا تاثر یہ ہے کہ اگر پاکستان صبر کرتا تو اسے کشمیر خود بخود مل جاتا۔ ہندوستان اسے فتح نہیں کر سکتا تھا، اور نہ ہی کوئی ہندو مہاراجہ آبادی کی ساخت کو نظر انداز کر سکتا تھا جس میں زیادہ تر مسلمان تھے۔جب کہ پاکستان نے اس کے برعکس بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کے دنوں میں ہی قبائلیوں کو باقاعدہ فوج کے ساتھ کشمیر بھیج دیا۔
کلدیپ نیئر آگے کہتے ہیں کہ دوسری طرف یہ سچ ہے کہ نہرو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند تھے اور پٹیل اس کے مخالف۔ یہاں تک کہ جب نئی دہلی کو مہاراجہ کی ہندوستان سے الحاق کی درخواست موصول ہوئی تو پٹیل نے کہا تھا ''ہمیں کشمیر کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہیے ہمارے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے''۔وہ اسی بات کے قائل تھے کہ پاکستان کو حیدر آباد کی بات نہیں کرنی چاہیے اور کشمیر پاکستان کو جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں سابق پاکستان کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی اپنی کتاب The Emergence of Pakistan میں ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’پارٹیشن کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے سردار پٹیل جو کہ پاکستان کے ایک تلخ دشمن لیکن نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھے۔ دونوں وزرائے اعظم (لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو) کے درمیان ہونے والی بات چیت میں سے ایک میں جس میں وزیر داخلہ سردار پٹیل اور میں بھی موجود تھے لیاقت علی خان نے جوناگڑھ اور کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی موقف کی عدم مطابقت پر بات کی۔ اگر جوناگڑھ اس کے مسلم حکمران کے پاکستان سے الحاق کے باوجوداس کی ہندو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کا تھاتو کشمیراس کی مسلم اکثریت کے ساتھ اس کے ہندو حکمران کے ہندوستان سے الحاق کے مشروط دستاویز پر دستخط کرنے کی وجہ سے ہندوستان کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟ اگر جوناگڑھ کے مسلمان حکمران کے دستخط شدہ الحاق کا دستاویز درست نہیں تھا تو کشمیر کے ہندو حکمران کے دستخط کردہ الحاق کا دستاویز بھی باطل تھا۔ اگر عوام کی مرضی جوناگڑھ میں غالب آنی تھی تو کشمیر میں بھی غالب آنی چاہیے۔ بھارت جوناگڑھ اور کشمیر دونوں پر دعویٰ نہیں کر سکتا۔ چوہدری محمد علی لکھتے ہیں 'جب لیاقت علی خان نے یہ ناقابلِ تردید نکات پیش کیے تو پٹیل خود پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے "آپ جوناگڑھ کا موازنہ کشمیر سے کیوں کرتے ہیں؟ حیدرآباد اور کشمیر کے بارے میں بات کریں جہاں ہم ایک معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ چوہدری محمدعلی مزید تبصرہ کرتے ہیں کہ پٹیل کا اس وقت اور اس کے بعد بھی نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان کی مسلم اکثریتی علاقوں کو عوام کی مرضی کے خلاف اپنے پاس رکھنے کی کوشش طاقت کا نہیں بلکہ ہندوستان کی کمزوری کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کشمیر کو پاکستان اور حیدرآباد کو ہندوستان جانے دینے پر راضی ہو جائیں تو کشمیر اور حیدرآباد کے مسائل پرامن طریقے سے حل ہوسکتے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان کے باہمی فائدے میں ہیں۔
سردار شوکت حیات جو کہ کشمیر آپریشن کے نگران تھے اپنی کتاب The Nation That Lost Its Soulمیں اسی تسلسل کو آگے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح لارڈ ماونٹ بیٹن نے انہیں ایک ڈنر پہ سردار پٹیل کا پیغام پہنچایا کہ پاکستان کشمیر کو حیدر آباد دکن کے بدلے میں لے سکتا ہے جس کے ساتھ نہ پاکستان کا کوئی زمنینی رابطہ ہے نہ فضائی۔ سردار شوکت حیات آگے کہتے ہیں کہ یہ پیغام دینے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور کے گورنمنٹ ہاؤس میں سو گئے۔ میں کشمیر آپریشنز کا مجموعی انچارج ہونے کے ناطے لیاقت علی خان کے پاس گیا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ چونکہ ہندوستانی فوج کشمیر میں زبردستی داخل ہو چکی ہے اور ہم کشمیر کو قبائلی مجاہدوں یا اپنی ناکافی مسلح افواج کے ساتھ الحاق کرنے سے قاصر ہوں گے ہمیں پٹیل کی تجویز کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ نوابزادہ (لیاقت علی خان) میری طرف مڑ کر بولے ’’سردار صاحب کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ کشمیر کی چٹانوں کی خاطر پنجاب سے بڑا حیدرآباد چھوڑ دوں؟‘‘ میں وزیر اعظم کے ردعمل اور ہمارے جغرافیہ سے ناواقفیت اور ان کی دانشمندی کی کمی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے اور حیدر آباد حاصل کرنے کی امید میں پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا، جو کہ بہترین طور پر صرف ایک عجیب خواہش مندانہ سوچ تھی۔ اس کا پاکستان سے کہیں تعلق نہیں تھا۔ احتجاج کے طور پر میں نے کشمیر آپریشنز میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
سیف الدین سوز کانگریس کے سابق وزیر اور منجھے ہوئے پارلیمنٹرین ہیں وہ اس واقعہ کو زیاد تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔جب ہماری فوج سری نگر میں اتری تو اسی دوپہر ماؤنٹ بیٹن لاہور گئے۔ پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح، وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستان کے چار وزراء کے ساتھ عشائیہ تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہامیں ہندوستان کے طاقتور آدمی سردار پٹیل کا پیغام لایا ہوں۔ کشمیر کو لے لو اور حیدرآباد دکن کو بھول جاؤ یہ تم سے کسی بھی طور جڑا نہیں ہے۔ جہاں تک جناح کا تعلق ہے وہ ایک وکیل تھے۔ انہوں نے جوناگڑھ کے لیے کشمیر کے تبادلے کی تجویز پیش کی کیونکہ دونوں ریاستیں کئی طریقوں سے ایک دوسرے کی آئینہ دار تھیں۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے غیر مسلم حکمران نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں شامل کر لیا تھا۔ جوناگڑھ ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے مسلم حکمران نے اپنی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کر لی تھی۔ جناح نے دلیل دی کہ چونکہ جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ہے اس لیے انہیں پاکستان کے گورنر جنرل ہونے کے ناطے ہندوستان کے ساتھ ریاست کے مستقبل پر بات کرنے کا حق ہے۔ لیکن چونکہ حیدرآباد کے حکمران نے اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے اسے ریاست کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے یا حیدرآباد کے حکمران کو اپنی مرضی کے خلاف اپنی ریاست کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اے ۔جی نورانی جو ایک تسلیم شدہ اسکالر ہیں اور مسئلہ کشمیر پر کافی علم رکھتے ہیں ا نہوں نے اپنے ایک مضمون A tale of two states میں لکھتے ہیں کہ 'ایک چوتھائی صدی بعد 27 نومبر 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے لنڈی کوتل میں ایک قبائلی جرگے کو بتایا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ اور ریاستوں کے وزیر۔ سردار پٹیل نے ایک مرحلے پر جوناگڑھ اور حیدرآباد کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن پاکستان نے بدقسمتی سےاس پیشکش کو قبول نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف تینوں آبائی ریاستیں کھو دیں بلکہ مشرقی پاکستان بھی۔

Friday 12 November 2021

وزیر اعظم صاحب! خود کو تاریخ کے رحم و کرم پہ مت چھوڑیں

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ نے مکہ میں اسلام کی دعوت اسلام کا آغاز کیا تو انہی دنوں میں ایران اور روم میں جنگ لگ گئی۔ جس میں ایران نے روم زبردست شکست سے دوچار کیا اور کئی علاقے چھین لیے۔ اہل روم عیسائی ہونے کے ناطے اسی خدا کے وجود کے قائل تھے جس کا پرچار روز قریش مکہ کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوتا تھا ۔جبکہ اہل ایران مجوسی تھے اور آگ کی پوجا کرنے کے باعث اہل مکہ کے ہم مذہب مشرک تھے۔ ایران کی اس فتح کو اہل مکہ نے طعنہ و تشنیع کے طور پہ استعمال کیا کہ آپ کا خدا اپنے پیروکاروں کو بچا نہیں سکا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ روم میں بھی اس کا ذکر کیا اور پیشگوئی کی کہ اہل روم دس سال سے کم عرصہ میں دوبارہ غالب آ جائیں گے۔ اسلام کی حقانیت پہ یہ پیشگوئی ایک بہت بڑی دلیل تھی۔ کیونکہ بظاہر ایسا ہونا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔ ہرقل جب روم کا قیصر بنا تو اس نے اپنی بکھری ہوئی سلطنت کو سنبھالا اصلاحات کیں اور دس سال سے بھی کم عرصہ میں ایران کو شکست دے کر قرآن کہ یہ پیشگوئی پوری کر دی ۔مورخین کا خیال ہے کہ یہ ناممکن فتح حاصل کرنے کے بعد ہرقل اگر مر جاتا تو وہ اپنے سے قبل اور اپنے سے بعد کی تاریخ کا سب سے کامیاب بادشاہ کے طور پہ جانا جاتا۔ لیکن اس کی زندگی کے آخری ایام شراب نوشی کی کثرت اور بد انتظامی کی نظر ہوگئے۔ جس کے باعث اس کی وہ عظیم ناممکن کامیابی بھی گہنا گئی۔ 2013 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو عمران خان ان کے لیے ایک مسلسل درد سر ثابت ہوا۔ پہلے انتخابی دھاندلی اور بعد میں پانامہ پیپرز کی آڑ میں وہ پانچ برس تک سڑکوں پہ رہے اور رائے عامہ کو منظم کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے جلسوں کے دوران ایک مثالی اسٹینڈ لیا اور عوام کے سامنے ایک خیالی طرز حکومت کا امیج کھڑا کیا۔ انہوں نے حکومت کے ہر کام پہ تنقید کی۔ نوجوان نسل اور ایلیٹ کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ پولنگ بوتھ پہ بھی لانے پہ کنوینس کیا۔ جس کا اظہار الیکشن کے دوران بلند ترین ٹرن آؤٹ کی صورت میں ہوا۔ اس طرح نوجوان نسل عمران خان پہ یقین کر بیٹھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دور اقتدار ہی ہر مسئلہ کی وجہ ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان حکومت میں آئے تو ان پہ اقتدار کی زمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان توقعات کا ہمالیہ بھی تھا جو انہوں نے خود اپنے ساتھ وابستہ کروا رکھیں تھیں۔ انہوں نے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ حکمران کا چور ہونا بتایا ۔لیکن اپنے دور حکومت میں ان کی قیمتوں کو کنٹرول نہ کر سکے۔ دھرنوں کے دوران وہ خود نوجوانوں کا وزیراعظم کہہ کر سوال پوچھتے کہ کیا آپ وزیراعظم کشکول لیکر بھیک مانگتا ؟ اس پہ مذید فرماتے کہ آپ کا وزیراعظم خود کشی کر لے گا لیکن بھیک نہیں مانگے گا لیکن تین سالوں میں اگر کسی چیز میں تسلسل ہے تو وہ آئی ایم ایف سے قرضوں کی وصولی میں ہے۔ انہوں نے گورنر اسٹیٹ بنک اور مشیر خزانہ براہ راست آئی ایم ایف کے مقرر کروائے جو تاریخ میں پہلی بار پریس کانفرنس میں مہنگائی کے فوائد عوام کو گنواتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے سامنے پنڈورا پیپرز آئے جن میں کئی وزرا اور ملٹری آفیسروں کے نام آئے تو وزیر اعظم صاحب نے پانامہ پیپرز والے خان صاحب کی زیارت عوام کو نہیں کروائی بلکہ اپنی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے کر سطحی نوعیت کے مسائل میں میڈیا کی توجہ مبذول کروا کر اسے پس پشت ڈال دیا۔ جنرل (ر)عاصم باجوہ کی امریکہ میں کمپنیوں کی موجودگی میں کسی تفتیش کی ضرورت کو اس لیے محسوس نہ کیا کہ وزیر اعظم نے اپنے مشیر خاص سے ذاتی وضاحت لے لی اور اسے ہی کافی سمجھا۔ انہوں نے عوام کو یقین دلا رکھا تھا کہ ان کے پاس ماہرین کی دو سو افراد پہ مشتمل ٹیم موجود ہے ۔جو حالات کو راتوں رات بدل دیں گے لیکن بعد ازاں انہوں نے وزراء کو جس طرح تبدیل کیا ان کے دعویٰ کی قلعی کھل گئی کہ ان کے پاس وزیر خزانہ وزیر داخلہ سے لیکر انفارمیشن منسٹر تک کے وزیروں کا شدید کال ہے۔ خان صاحب کا آئے دن وزیر تبدیل کرنا یا انہیں عہدوں سے ہٹانا ویسا نہیں جیسا وہ بیان کرتے ہیں کہ کپتان بہتر سمجھتا ہے کہ کس وزیر کو کس پوزیشن پہ کھلانا ہے اور کسے ڈراپ کرنا ہے بلکہ پارلیمانی نظام اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ کام کرتا ہے جس میں ایک وزیر کا ناکام ہونا پوری کابینہ کی ناکامی ہے۔ اور کسی ایک وزیر کا اچھا کام کرنا پوری کابینہ جس کا وزیراعظم سربراہ ہوتا کی نیک نامی کا سبب بنتا۔ ان کا وزراء کو تبدیل کرنا یا ان کے قلمدان تبدیل کرنا خود اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ جو کہ گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے درجنوں بار پیش کی ہے ۔ عمران خان 92 کے ورلڈ کپ کی ماند اب بھی اسی بات کے منتظر ہیں کہ اگر ویسٹ انڈیز آسٹریلیاکو ہرا کو خود نیوزی لینڈ سے ہار جائے تو پاکستان کا کوئی چانس بن سکتا ہے۔ کرونا کی وبائی مرض کے دوران بین الاقوامی امداد کا انتظار حکومت کو پہلے دن سے تھا لیکن حالات اس درجے کے خراب نہ ہو سکے تو یہ موقعہ بھی قدرت نے فراہم نہ کیا۔ اشیا خورد نوش کی قیمتوں پہ حکومتی کنٹرول کا نہ ہونا، عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ، انڈسٹری کا پہیہ نہ چل سکنا اور اب ڈینگی پہ حکومت کی سست روی حکومت کی ناکامی کی چند مثالیں ہیں جن پہ حکمران جماعت کو انتخابات میں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حزب مخالف والے کپتان کی حکمران کپتان نے ڈٹ کر مخالفت کی ہے۔ ہر اس بات سے انکار کیا جس کا وعدہ حزب مخالف کا کپتان کیا کرتا تھا۔ 2013میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے ن لیگ کو لوڈ شیڈنگ ورثے میں ملی تھی لیکن اس نے جس طرح لوڈ شیڈنگ پہ کنٹرول کیا وہ قابل تعریف تھا۔ ڈینگی کی وبا پہ قابو پانا بھی دنیا بھر میں نیک نامی کا باعث بنا۔ انڈسٹری کے پہیے کو متحرک کیا موٹر ویز کا ملک بھر میں جال بچھایا۔ ایسے میں عمومی تاثر کے مطابق ن لیگ کو شکست دینا ناممکن تھا۔لیکن عمران خان نے اسے شکست دے کر ہر قل کی طر ح نا ممکن کو ممکن بنا دیا ۔ان حالات میں بلکل ہرقل کی مانند عمران خان صاحب اگر پچھلی حکومت کو اپنی کامیاب تحریک کے ذریعے ختم کرنے کے بعد اگر منظر سے ہٹ جاتے تو وہ اپنے سے قبل اور اپنے سے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک کامیاب رہنما کے طور پہ جانے جاتے ۔وہ تاریخ میں امر ہو جاتے۔ بھٹو تو شاید کبھی مر جائے لیکن خان صاحب کبھی نہ مرتے۔ لیکن خان صاحب نے ہرقل بننا پسند کیا اب خود تاریخ کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات تو پہلے دن سے طے تھی کہ ان میں انتظامی صلاحیتوں کا شدید فقدان ہے لیکن اب وہ اپنی ایمانداری کی قلعی بھی کھولتے جا رہے ہیں ۔اپنے کرم فرماؤں اور ہمنواؤں کی شدید کرپشن پہ خاموشی اور حوصلہ افزائی ان کی شوکت خانم کے پرجیکٹ پہ بھی انگلیاں اٹھانے کا باعث بنے گی۔فارن فنڈنگ کیس میں عدالت سٹے آرڈ ر حاصل کر نا اور شوکت خانم ہسپتال کے فنڈز کا کبھی آڈٹ نہیں چھپا لوگ پوچھیں گے ہمارا دیا گیا صدقہ کہاں گیا۔تب خان صاحب کے پاس کوئی منی ٹریل نہیں ہو گی اور لوگ انہیں تاریخ کا بھیانک کردار سمجھ کر فراموش کرنے کو ترجیح دیں گے۔

Tuesday 24 August 2021

ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کا نام حسینیت ہے

0 comments
امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ میں اس نقطہ ماسکہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے گرد امت کے تمام گروہ اپنا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شعیہ سنی تقسیم اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ہو چکی تھی لیکن شہادت امام حسین علیہ السلام نے اس تقسیم کی خلیج کو مزید گہرا، وسیع اور منظم کر دیا۔امام حسین علیہ السلام انتہائی زیرک انسان تھے وہ اپنے والد بزرگوار خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور اپنے بڑے بھائی سیدنا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ اہل کوفہ کی بے وفائی کے چشم دید گواہ ہونے کے باوجود اہل کوفہ کے دام فریب میں کیسے آگئے؟کن محرکات کے امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کی دعوت کو 0قبول کر لیا؟ کیا امام حسین علیہ السلام پیش آنیوالے حالات کا درست ادراک نہیں رکھتے تھے؟ ان سوالات کا جائزہ لینے سے قبل اگر ہم یہ بات پہلے سمجھ لیں کہ امام حسین علیہ السلام کو پیش آنیوالے حالات کوئی پوشیدہ امر نہیں تھا تو باقی سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے میں آسانی پیدا ہو جائیگی۔ناصرف امام حسین ؑ بلکہ اہل مدینہ اور مکہ میں بیشتر افراد اس بات کا انتہائی واضح ادراک رکھتے تھے کہ عنقریب شہادت امام حسین ؑ کی صورت میں بہت بڑا المیہ رو نما ہونے کو ہے ۔ جن میں سے چند ایک افراد کی امام حسین ؑ کے عراق کی جانب سفر پہ رائے دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے بیٹے اور امام حسین ؑ کے بھائی تھے جب آپ کو امام حسینؑ کی کوفہ روانگی کا علم ہوا تو آپؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ "میرے بھائی آپ مجھے سب لوگوں سے پیارے ہیں ۔ اور میری نظروں میں آپ کی عزت بہت زیادہ ہے۔مخلوق میں ایسا کوئی شخص نہیں جو میری نصیحت کا آپ سے زیادہ حقدار ہو۔آپ یوں کریں کہ خود بھی یذید بن معاویہ کی بیعت نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے دوسرے شہروں کو بھی ایسا کرنے سے روکیں۔پھر لوگوں کے پاس قاصد بھیج کر انہیں اپنی طرف بلائیں ۔ اگر وہ آپؑ کی بیعت کر لیں تو ہم اس پر اللہ کی تعریف کریں گے۔اور اگر ان کا کسی اور پہ اتفاق ہو تا ہے تو اللہ اس سے نہ آپ کے دین میں کوئی کمی کرے گااور نہ ہی آپ کے عقل اور مردانگی میں کوئی کمی آئیگی۔میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کسی شہر میں کسی جماعت کے پاس جائیں اور ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے اور کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہوں اور کچھ لوگ آپ کے خلاف ہوں اور وہ آپس میں لڑپڑیں تو پہلے نیزے کا شکار آپ ہو جائیں ۔اس طرح امت کے ہر اعتبار سے افضل اور بہتر انسان کا خون رائیگاں چلا جائے گا۔ اس پر امام حسین ؑ نے جب پھر سے جانے کا ارادہ ہی ظاہر کیا تو وہ پھر سے گویا ہوئے کہ پھر آپ ؑ مکہ چلے جائیں ۔ اگر وہاں اطمینان میسر ہو تو ٹھیک ہے ورنہ شہر شہر پھرتے رہیں اورلوگوں کے فیصلے کا انتظارکریں ۔ اس پر امام حسین ؑ نے ارشاد فرمایا میرے بھائی تم نے میری خیر خواہی کی اور میں امید کرتا ہوں کہ تمہاری رائے درست ہو گی۔لیکن امام حسین ؑ کوفہ جانے پہ مصر رہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ امام حسین ؑ کے والد کے چچازاد بھائی تھے ۔جب انہیں آپ ؑ کی کوفہ رانگی کا علم ہوا تو آپ ؑ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ آپؑ کی عراق کی طرف روانگی کا سن کر بہت پریشان ہوں ۔کیا آپ ایسے لوگوں کی طرف جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال کر ملک پہ قبضہ کر لیا ہے؟ اگر تو ایسا کر لیا ہے تو بڑے شوق سے جائیے۔لیکن اگر ایسا نہیں ہوا اور حاکم بدستور ان کی گردنیں دبائے بیٹھا ہے اور اس کے کارکن مسلسل اپنی کارستانیاں کر رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو فتنہ اور جنگ کی طرف بلا رہے ہیں ۔میں ڈرتا ہوں کہ وہ لوگ آپ کو دھوکہ نہ دیں اور جب دشمن کو طاقتور دیکھیں تو آپ کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیں ۔ اس پر امام حسین ؑ نے حالات پہ نگاہ رکھنے اور اللہ سے استخارہ کرنے کی بات کرکے بات ٹال دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہکو لگا کہ امام حسین ؑ ان سے شائد کچھ چھپا رہے ہیں تو عین کوفہ روانگی کے وقت پھر امام حسین ؑ سے کہنے لگے کہ " ائے چچا زاد میں خاموش رہنا چاہتا تھا لیکن خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں اس راہ میں آپؑ کی ہلاکت اور بربادی دیکھ رہا ہوں۔اہل عراق دغا باز قسم کے لوگ ہیں ان کے دھوکے میں نہ آئیں ۔ یہیں قیام کریں یہاں تک کہ اہل عراق اپنے دشمن کو نکال باہر کریں ۔اگر آپ ؑ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیں وہاں قلعے اور دشوار گزار پہاڑ ہیں ۔ ملک کشادہ اور لوگ آپ کے والد کے ہم نوا بھی ہیں ۔ ان لوگوں سے الگ تھلگ رہیں ۔خطوط اور قاصدوں کے ذریعے اپنی دعوت پھیلاتے رہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر آپ یہ کام کریں گے تو کامیاب ہوجائیں گے۔ ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسین ؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہارے باپ اور بھائی کے ساتھ اہل عراق نے جو کیا میری آنکھوں کے سامنے ہے۔تم ان لوگوں کے پاس جا نا چاہتے ہو حالانکہ وہ دنیا کے پجاری ہیں ۔تمہارے ساتھ وہی لوگ قتال کریں گے جنہوں نے مدد کا وعدہ کیا ہے۔اور تمہیں وہی لوگ بے یارو مدد گار چھوڑ جائیں گے جنھیں تم ان لوگوں سے پیارے ہو جن کی وہ معاونت کریں گے۔ ان افراد کے علاوہ جن افراد نے امام حسین ؑ کو کوفہ جانے سے نہ صرف روکا بلکہ اہل عراق کے بے وفا اور بذدل ہونے کی نشاندہی کی ان میں حضرت عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن زبیر ،ابو سعید خذری، حضرت جابر بن عبداللہ، آپ کے بہنوئی اور حضرت زینب ؑ بنت علی ؑ کے شوہر حضرت عبداللہ بن جعفر طیار ، ابو واقد لیثی، عمرہ بنت عبد الرحمان، عبداللہ بن مطیع، سعید بن مسیب،عمرو بن سعید بن العاص رضوان اللہ تعالی عنہ اور عرب نے عظیم شاعر فرذق سمیت کئی دیگر عظیم ہستیاں شامل تھیں ۔ ان افراد کی امام حسینؑ سے ہونیوالی گفتگو سے یہ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین ؑ کو پیش آنیوالی مشکلات سب پہ عیاں تھیں تو ایسے میں امام حسین ؑ بھلا کیسے ان سے پردے میں رہ سکتے تھے۔یعنی اہل کوفہ کے رویے ان کے ماضی کے آئینے میں امام حسین ؑ کی آنکھوں کے سامنے تھے ۔ یزید کے مسند اقتدار پہ بیٹھتے ساتھ ہی اہل کوفہ نے امام حسین ؑ کو اپنے ہاں مدعو کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہزاروں خطوط اور کئی وفود کے ذریعے اما حسین ؑ کو اپنی بیعت کی یقین دہانی کروا رہے تھے ۔ امام حسین ؑ سے کوفہ روانگی سے متعلق جس کسی نے بھی گفتگو کی امام حسین ؑ نے کسی سے کوئی بحث نہیں کی بلکہ ہر کسی کو ایک ہی بات کی کہ اہل کوفہ کےدعوتی خطوط ان کے پاس ہیں ۔ جو امام حسین ؑ نے مختلف تھیلوں میں باندھ رکھے تھے جن کی تعداد تاریخ میں ہزاروں بیان ہوئی ہے۔ یعنی اس قدر حالات کی سنگینی کے بیان پر بھی امام یہ ہی فرماتے کہ میرے پاس اہل کوفہ کے ہزاروں میں خطوط موجود ہیں۔ یہاں تک کہ مقام اشراف پہ ابن زیاد کے لشکر جس کی قیادت حر بن یزید کر رہا تھا سے ملاقات ہوئی تو اس وقت بھی امام حسین ؑ نے اہل کوفہ کے خطوط کو ہی اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔یہ ہی آپ نے کربلا میں یزیدی لشکر کے سربراہ عمر بن سعد کے ساتھ مذاکرات میں بیان کیا کہ میری آمد کا مقصد یہ تھیلوں میں پڑے اہل کوفہ کے خطوط ہیں ۔ امام حسین ؑ اہل کوفہ کی دعوت پہ تشریف لائے۔ آپ ؑ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چچازاد حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ بھیجا۔ ابتدائی طور پہ ۱۸ ہزار کے لگ بھگ افراد نے بیعت کی لیکن عین وقت پہ سبھی نے اپنی جان بچانے کے لیے امام حسین ؑ سے کو کربلا میں تنہا چھوڑ دیا۔ امام حسین ؑ اوپر درج کیے گئے صحابہ اکرام میں سب سے زیادہ زیرق انسان تھے انہیں خود بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اہل کوفہ کی سرشت میں بے وفائی اور بذدلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن اگر امام حسین ؑ دیگر صحابہ اکرام کی بیان کردہ حکمت عملی پہ عمل پیرا ہوتے تو یقینا آپ تخت شام کے لیےاتنا تر نوالہ ثابت نہ ہوتے۔ ایک بہت بڑی خونریزی کے بعد آپ ؑ کے کامیاب ہونے کے بھی واضح امکان ہو سکتے تھے۔لیکن اس سے مستقبل میں انقلاب ہر تخت شام کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک اہل کوفہ کی منافقت کی نظر ہو جاتی۔ کوئی حق کے لیے اٹھنے والی تحریک کوفیوں کے شر سے محفوظ نہ رہ پاتی۔ آپؑ کے اس سفر سے جہاں امام حسین ؑ حق کے استعارے کے طور پہ ابھرے وہیں پہ تخت شام ظلم اور اہل کوفہ آستینوں کے سانپ کے طور پہ متعارف ہوئے۔ اگر امام حسین ؑ کوفہ کی جانب سفر نہ کرتے اور یزید کا اقتدار مستحکم ہو جاتا تو اہل کوفہ ہمیشہ اسی بات کا طعنہ دیتے کہ ہم نے امام حسین ؑ کو اپنی قیادت کی دعوت دی تھی لیکن امام حسین ؑ کا قیادت سے پیچھے ہٹ جانا یزید کے اقتدار کو مستحکم کرنے کا سبب بنا۔ امام حسین ؑ اپنے ضمیر پہ اہل کوفہ کا یہ طعنہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ ؑنے اپنی اور اپنے اہل خانہ اور جانثاروں کی قربانی دیکر حق کی ہر تحریک کو اہل کوفہ سے خبردار کیا ہے۔ امام حسین ؑ تمام تر خطرات سے اگاہ ہونے کے باوجود صرف اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔ اور یہ ہی انسانیت کی معراج ہے کہ اسے اپنے ضمیر کے سامنے کھڑا ہونے میں کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔