Monday 18 April 2022

غزوہ بدر (عجز اور تکبر کا پہلا معرکہ)

0 comments
17 رمضان غزوہ بدر کی مناسبت سے اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں عجز اور تکبر آپس میں آمنے سامنے ہوئے اور تکبر کی ناک خاک آلود ہوئی۔ یہ جنگ محض تاریخ کے اوراق میں ہی محفوظ نہیں بلکہ خالق کائنات نے اسے آخری منبع رشد و ہدایت میں بھی ایک سے زائد جگہوں پہ بیان کیا ہے۔ قرآن کریم کی سورت آل عمران کی آیات 12 13 اور 123 سے 127 میں، سورت نساء کی آیات 77 اور 78 میں اور سورت انفال کی آیات 1 سے 19 تک اور 36 سے 51 تک نیز آیات 67 سے 71 تک، میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کو یوم الفرقان کا نام دیا گیا ہے۔ ان آیات کریمہ میں مشرکین کے لاحاصل اقدامات کو سابقہ اقوام ـ بالخصوص آل فرعون ـ سے تشبیہ دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس جنگ میں کفار و مشرکین کی شرکت شیطان کے مکر و فریب کا نتیجہ تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ ہوا کہ اب جنگ ناگزیر ہے تو آپ (ص) نے لشکر میں موجود انصار اور مہاجرین سے مشورہ طلب کیا۔ مہاجرین میں سے حضرت مقداد نے عرض کیا: ” ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے یہ سن کر آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ مہاجرین کی بجائے انصار سے رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ: ” یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔ “ بدر کے مقام پہ پہنچ کر جس جگہ کو پڑاؤ کے لیے منتخب کیا اس کی بابت جنگ کی حکمت عملی کے ماہر صحابی حضرت حباب بن المنذر نے دریافت کیا یا رسول اللہ کیا اس جگہ کو آپ نے وحی الٰہی کے تحت منتخب کیا ہے یا اپنی رائے سے؟ نبی کریم (ص) نے فرمایا اپنی رائے سے۔ جناب حباب (رض) نے کہا یہ جگہ مناسب نہیں۔ اگر ہم قریش کے لشکر کے قریب والے کنوئیں پہ پڑاؤ ڈالیں اور باقی کنوئیں بند کر دیں تو جنگ شروع ہونے سے قبل ہمیں مخالف لشکر پہ برتری حاصل ہو جائے گی کیونکہ مخالف لشکر پانی کی رسد میں تنگی محسوس کرے گا۔ نبی کریم (ص) نے مشورہ قبول کر لیا۔ اس سے یہ نقطہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹیکنیکل مشاورت پہ تقدیس کو ترجیح نہیں دی جانی چاہیے۔ جنگ سے قبل رات بھر نبی کریم (ص) اپنے خیمے میں سجدہ ریز رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے۔ جو دعا تاریخ میں نقل ہوئی ہے اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نبی کریم (ص) کس قدر اپنے مشن کو لیکر متفکر تھے آپ نے اللہ سے دعا کی: "اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی." جنگ شروع ہوئی تو عرب رواج کے مطابق اہل قریش کے تین معزز سرداروں عتبہ ، شیبہ اور ولید نے میدان جنگ میں اپنے مخالف مبازرت طلب کی۔ نبی کریم (ص) نے مبازرت قبول کی اور ان کے مقابلے پہ اپنے سب سے عزیر چچا زاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ، اپنے دوسرے چچا زاد عبیدہ بن حارث اور اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو بھیجتے ہوئے کمال کا اصول بیان فرما دیا کہ تحریک اس وقت کامیاب ہوتی جب مشکل ترین وقت میں اپنے سمیت اپنے پیاروں کو سب سے آگے کیا جائے ناکہ کامیاب ہونے کے بعد۔ جو لیڈرز خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ پناہ گاہوں میں رکھ کر پیروکاروں سے قربانی کا تقاضا کریں ان کے مقاصد اخلاص سے خالی ہوتے ہیں۔
جنگ نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ 14 مسلمانوں کے مقابلے میں 70 کفار واصل جہنم ہوئے جن میں سے 38 کو صرف حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے قتل کیا۔۔ قریب قریب سبھی بڑے بڑے سردار جن میں عتبہ ، شیبہ، ولید، امیہ بن خلف ابوجہل جیسے نبی کریم (ص) نے اپنی امت کا فرعون قرار دیا اور اس جنگ کا اصل محرک وہ ہی تھا اسی پہلی جنگ میں مارے گئے۔ یہ جنگ نئے دینی رشتوں کے قیام اور پرانے خونی رشتوں کو منہدم کرنے پہ مہر ثبت کرتی ہے کیونکہ اس جنگ میں بھائی اپنے اپنے بھائی سے برسرِ پیکار تھا۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے ہاتھوں آپ کے سگے ماموں واصل جہنم ہوئے۔ 70 قیدیوں کو مدینہ لایا گیا۔ ان کے مستقبل پہ ایک مرتبہ پھر مشاورت کے لیے صحابہ کا اجلاس طلب کیا گیا۔ حضرت سعد بن عبادہ نے مشرکین مکہ کو جلا دینے کی تجویز دی اسی طرح حضرت عمر نے کہا کہ ہر مہاجر اپنے مشرک عزیز کو قتل کردے تاکہ اہل مکہ واضح پیغام موصول کر سکیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کے برعکس نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ انہیں فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ اپنے مشورے کی دلیل یہ بیان کی کہ ایک تو اس سے مسلمانوں کی موجودہ مالی مشکلات میں کمی واقع ہوگی دوسرا غالب امکان ہے کہ ان میں سے کچھ ایمان لے آئیں اور اسلام کی طاقت کا باعث بنیں۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رائے حضرت ابوبکر کے حق میں ڈال دی۔ ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔