Friday 27 April 2018

مرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔

0 comments
روزانہ پاکستان میں کسی نہ کسی جگہ "حادثاتی " طور پہ آگ لگتی ہے۔ سڑکیں بھی روزانہ کی بنیاد پہ شہریوں کوموت بانٹتی ہیں۔ آگ لگنے کے واقعات اور سڑکوں پہ ہونے والے حادثات کا اگر ڈیٹا نکال کر تجزیہ کیا جائے تو انداز ہ ہو گا کہ ہم دہشت گردی اور سٹریٹ کرائم کی وجہ سے اتنے جانی اور مالی نقصان کے شکار نہیں ہوئے جتنا ان دو وجوہات کی بنا پر ہمیں نقصان سے دوچار ہونا پڑ ا۔ریاست کی ساری توانائی خرچ کر کے ہم دہشت گردی کی روک تھام ممکن بنانے میں 15سال صرف کر بیٹھے مگر دہشت گردی کا مسئلہ اپنی جگہ بدستور قائم ہے۔ کیا ٹریفک حادثات میں مرنے والے پاکستان کے شہری نہیں ۔؟ کیا ان مرنے والوں کے وارث نہیں ہوتے؟ریاست کا ٹریفک حادثات کی طرف آنکھ بند کر لینا کیا ریاستی ذمہ داریوں کی احسن سبکدوشی ہے؟ ٹریفک حادثات کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے ایک جامع کمیشن کی تشکیل ضروری ہے۔ روزانہ سڑکوں پہ سفر کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ زیادہ تر حادثات کی وجہ تیز رفتاری ہے۔ سڑکوں کا کشادہ نہ ہونا، اور بروقت مرمت سے غفلت بھی ان حادثات میں اضافے کا باعث ہیں ۔غیر تربیت یافتہ ڈرائیور ، پارکنگ ایریاکی ناکافی سہولیات اور غیرتربیت یافتہ پولیس کا نظام اس امر کو مزید گھمبیر بنائے دیتا ہے۔ایسی ہی کئی وجوہات ہم سب کے مشاہدے میں روزانہ آتی ہیں لیکن آج کے کالم کا مقصد ٹریفک حادثات کی وجوہات کا پتہ کرنا نہیں بلکہ ان اقدامات کی کھوج ہے جن سے یہ حادثات کم ہو جائیں اور سڑکوں پہ زندگی محفوظ تصور کی جانے لگے۔ 1۔حکومت ٹریفک لائسنس کے عمل کو آسا ن بنائے۔ تحصیل کی سطح پہ ٹریفک لائسنس کے حصول کے مراکز کھولے جائیں ۔ آن لائن رجسڑیشن کی سہولت دینے سے یہ عمل مذید آسان ہو جائے گا۔ لائسنس سے قبل سخت ڈرائیونگ امتحان لیا جائے۔لائسنس کے لیے اہل قرار دینے والے آفیسر کا نام لائسنس پہ درج ہو۔ لائسنس جس نوعیت کی گاڑی کے لیے حاصل کیا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسری گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔لائسنس صرف ایک سال کے لیے جاری کیا جائے ۔ ایک سال کے بعد اس کی توسیع دوبارہ کڑے امتحانی عمل کے بعد کی جائے۔اس عمل سے سرکار کے ریوینو میں اضافہ ہو گا اور مہارت یافتہ افراد سڑکوں پہ نظر آئیں گے۔بغیر لائسنس گاڑی چلانا ناممکن بنا دیا جائے۔ 2۔اکثر جو بات دیکھنے میں آتی ہے وہ یہ کہ چلان شدہ افراد چلان کی چٹ اپنے پاس رکھ کر شدید ٹریفک کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ ٹریفک چلان ہو جانے کے بعد گاڑی اس وقت تک سڑک پہ چلانے کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ چلان کی رقم ادا نہ کر دے۔ اگر کوئی شخص ایک سال میں 4بار ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو اس کا لائسنس 5سال کے لیے منسوخ کر دیا جائے۔ 3۔ٹریفک چلان کی رقم بھی اس قدر کم ہے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ٹریفک چلان کی رقم ڈرائیور کی اوقات سے زیادہ ہونی چاہیے تاکہ قانون کی خلاف ورزی کا کوئی متحمل نہ ہو سکے۔ اگر موٹر سائیکل والے کا چلان 5 ہزار روپے ہو جائے تو وہ ساری زندگی موٹر سائیکل کو اپنی مقررہ حدود کے اندر ہی چلائے گا۔ 4۔ لائسنس کے اجراء کے لیے قومی شناختی کارڈ لازمی ہے۔ اس لیے اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو کسی طور گاڑٰ ی چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ امر ٹریفک حادثات میں یکسر کمی کا سبب بنے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد سڑک پہ گاڑی چلاتے پائے جائیں تو گاڑی ضبط کرنے سمیت ان کے والدین کو بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں سنائی جائیں جو اپنی اولاد کے شو ق کی خاطر دوسروں کے گھروں کے چراغ گل کر دیتے ہیں ۔ 5۔ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ڈیوٹی اوقات میں نرمی لائی جائے۔ ان کی مراعات میں اضافہ کیا جائے۔ چلان سے قبل ناقابل تردید ثبوت پیش کرنا ضروری قرار دیا جائے۔ خلاف ورزی کے مرتکب افراد کی غلطی کرتے وقت ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے ۔ ٹریفک حادثے کا سبب اگر کوئی بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے والا شخص ہو تو اس علاقے میں ڈیوٹی پہ معمور ٹریفک پولیس اہلکار کا معاونت ِ جرم کے تحت مقدمے میں فریق مقرر کیا جائے۔ 6۔موٹروے پولیس کی طرز پہ ہائی وئے پولیس کو الگ اور بااختیار ادارہ بنایا جائے ۔ تاکہ سفارش، تعارف اور دھونس دھاندلی کو موثر طریقے سے روکا جا سکے۔جرم کے مرتکب افراد کو موقع پہ جرمانہ ادائیگی کا پابند بنایا جائے۔ اگر کسی جرمانے پہ اعتراض ہو تو اس کو عدالت جانے کا استحقاق حاصل ہو اگر اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو تو عدالت پو لیس اہلکار کی تنخواہ سے اس شخص کو ازالہ کرے۔ ان کے لیے الگ عدالتی نظام متعارف کروایا جائے۔جہاں وکیل کے بغیر حاضر ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 7۔سنگل سڑک کو در رویا میں تبدیل کر دیا جائے جب تک یہ ممکن نہ ہو تب تک سڑک کے درمیان میں ایک دیوار لازمی بنا دی جائے جس کو پھلانگنا ممکن نہ ہو۔ مخصوص جگہوں سے ہی صرف سٹرک کراس کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ سڑک پار کرنے والے افراد کو بھی جرمانے اور قید کی سزائیں دی جائیں ۔ 8۔بس سٹاپ کی واضح نشاندہی کی جائے۔ وہاں پہ سرکار مناسب چھاؤں اور بیٹھنے کا بندوبست کرے۔ تمام پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے لازمی ہو کہ وہ صرف سواری کو انہی مخصوص جگہوں سے اٹھائیں اور اتاریں۔بس سٹاپ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے ۔ یا تعمیر کر کے پرائیویٹ سیکٹر سے اشتہارات کی مد میں کثیر سرمایہ کمایا جا سکتا ہے۔ 9۔سروس روڈ پہ ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ اور سائیکل ، موٹر سائیکل ، رکشہ، یا ریڑھی کو پابند کیا جائے کہ وہ سروس روڑ کو استعمال کریں ۔ سڑکوں پہ مختلف گاڑیوں کے لیے مخصوص لائین کے علاوہ گاڑی چلانے بھاری جرمانے عائد کیے جائیں ۔ 10۔ٹرالی ٹریکٹر کو ممنوعہ سواری قراردیا جائے۔سامان کی ترسیل کے لیے بند کنٹینرز کو استعمال کیا جائے۔ کھلے ٹرک بھی اس ضمن میں اہم ہیں ۔ اس کی آرائش کے لیے ان کے ڈیزائن کو جیسا بنایا جاتا ہے وہ قابل غور ہے حکومت کو اس باب میں ہدایات جاری کرنی چاہیے۔ یہ ڈیزائن ناصرف روڑ پہ چلنا خطر ناک ہے بلکہ ہوا کی مزاحمت کے باعث فیول بھی بہت ضائع ہو تا ہے۔ 11۔شہروں میں ٹریفک کے بے ہنگم ہونے کی وجہ ٹریفک کا سڑکوں کی صلاحیت سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو تجارتی مرزکز شہر سے باہر تجارتی زون بنا کر منتقل کر سکتی ہے۔ جہاں پاکرکنگ کی وسیع اور جدید سہولیات میسر ہوں ۔ 12۔ٹریفک کے حادثات کے جائزے سے یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے ہے اکثر ٹریفک حادثات میں موٹر سائیکل کی تیز رفتاری ملوث ہے۔ کیونکہ موٹر سائیکل کا توازن دو ٹائروں پہ کھڑا ہے اس لیے یہ معمولی سی غفلت سے بھی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے۔اس کے لیے موٹر سائیکل کو بائی سائیکل سے ٹرائی سائیکل میں تبدیل کرنے سے اس کی رفتار میں بھی کمی آئے گی اور یہ زگ زیگ طریقے سے چلائی بھی نہیں جا سکے گی۔ ون ویلنگ پہ بھی قابو پا لیا جائے گا اور موٹر سائیکل کے جرائم میں استعمال پہ بھی قابو پانا آسان ہو گا۔ 13۔گاڑی کا maintenance سرٹیفیکٹ کے بغیر روڑ پہ آنے کی اجازت نہ ہو۔سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لیے آزادانہ اور بااختیار میکانزم تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔ گاڑیوں کو خرید کے وقت انشورنس کرونا لازمی قرار دیا جائے۔ یہ سرٹیفیکیٹ انشورنس جاری کرنے کے لیے مختلف ورکشاپس کے ماہرین کی خدمات حاصل کریں۔ کیونکہ انشورنس کمپنیاں نقصان کی ذمہ دار ہوں گی اس لیے سرٹیفیکیٹ کے حصول میں سرکاری دو نمبری کی طرز پہ غفلت دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ 14۔چنگ چی رکشہ کو آٹو رکشے کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے۔ وہ نہ صرف ماحول دوست بھی بلکہ متوازن بھی ہے۔ الغرض کئی اور ایسی تجاویز دی جا سکتی ہیں جن سے ہم ریاست پہ آنے والے بے سہارا افراد کے بوجھ کو کم کر سکتے ہیں۔ کئی گھرانوں کے چراغ بجھنے سے بچا سکتے ہیں۔ شہریو ں کی جان اور مال کی حفاظت ریاست کا فرض ہے۔ بہترین حکمت عملی، موثر منصوبہ بندی اور غیر جانبدارنہ عمل درامد ہماری نسلوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ دہشت گردی بھی اسی لیے ملک کاسب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس میں اچانک جان اور مال کانقصان ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے حکومت جتنی سنجیدگی سے حرکت میں آئی ہوئی ہے اتنی ہی توجہ اور متحرک ہونے کی ضرورت اس ضمن میں بھی ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کبھی کبھار انسانی جانوں سے کھیلتی ہے مگر یہ سٹرکوں پہ حکومتی لاپرواہی روز گھروں کو اجاڑ رہی ہے۔ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے اس لیے خدا کے لیے مرنا اتنا آسان نہ ۔ (نوٹ:کالم کا پارٹ –ٹو ان تجاویز پہ مبنی ہو گا جن سے آگ لگنے کے واقعات کی روک تھام میں مدد مل پائے) ابوبکر صدیق ایم ۔ فل ۔ پولیٹیکل سائنس

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔