Wednesday 13 June 2018

عام آدمی کدھر جائیں گے؟

0 comments
دیلی میں یونائٹڈ صوبے میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ جماعت بہت کم عرصے میں انڈیا کی سیاست میں مقام بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔انہوں نے بڑے مختلف مدعوں پر سیاست کرکے انڈیا کے نوجوان ذہن کو متاثر کیاہے۔6جون کوعام آدمی پارٹی کی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ماحولیات کے وزیر عمران حسین نے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر اپنی نئی پالیسی پیش کی ۔ جس کی کابینہ نے منظوری دی۔ جس کے تحت دہلی میں چھ مختلف مقامات پہ جنگلات لگائیں جائیں گے اور ولائیتی کیکر جو کہ مقامی آب و ہوا سے مطابقت نہیں رکھتا اس کی جگہ بھی نئے درخت لگائیں جائیں گے۔حکومت نئی نسل کے لیے قابل رہائش انڈیا کے وژن پہ کا کر رہی ہے؟ پنجاب کے میدانی علاقوں میں مئی کے مہنے میں درجہ حرارت 46ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔جون 51 یا 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کے امکان ہیں ۔ وہ درجہ حرارت جو کبھی محض جیکب آباد اور سبی کا ہوا کرتا تھا اب بیشتر شہروں کا ہو رہا ہے۔حکومتیں اس ضمن میں خاموش ہیں بلکہ اس صورت حال کو اور بڑھاوا دے رہی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے دس سالوں میں سٹرکوں کو وسیع کرنے یا نئی سڑکوں کی تیاری میں 30ہزار درخت محض لاہور ہی سے کاٹے گئے ہیں ۔بجری اور پتھر کرش کرنے والے یونٹ لاہور یا اس کے مضافات میں قائم کر کے اس چیز میں اور سنجیدگی پیدا کی گئی ہے۔ گرین اکانومی کی اصطلاح دنیا بھر میں استعمال کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کے بڑے ممالک ماحولیات پہ سمٹ کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کسی کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ پنجاب ناقابل رہائش خطہ بنتا جا رہا ہے ۔ درجہ حرارت میں اضافہ کنٹرول انسانی بساط میں ہے لیکن اس پر حکومتی رٹ بہت ضروری ہے۔ حکومت بے شمار ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس سے محض پانچ سالوں میں پاکستان کے جنگلا ت کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت لوڈ شیڈنگ کے جن کو کسی طور بھی قابو میں کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کو ماحولیات پہ ایمرجنسی پلس لگا کر کام کرنا ہو گا تا کہ لوگو ں کے لیے ماحول ساز گار رہے ۔ اس حوالے سے کچھ تجاویز درج ذیل ہیں۔ 1. ملک میں لگے ہوئے تمام درختوں کو سرکاری تحویل میں لے کر ان کی گنتی کی جائے ۔ 2. پاکستان کے پاس وراثت میں ملا ہوا دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔نہری نظام پورے پنجاب میں بکھرا ہوا ہے ۔ اگر ہم 10 فٹ کے وقفے پر نہروں کے دونوں کناروں پر درخت لگا دیں تو اس سے موسمی اثرات کے ساتھ ساتھ زمینی کٹاو کا عمل بھی رک جائے گا۔ 3. نہروں کی طرح دریاوں کے کناروں کو بھی اس ضمن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 4. نیشنل ہائی وئے کے پاس ایک طویل رقبہ موجود ہے۔اطراف میں موجود 220فٹ تک حکومتی زمین پر حکومت سڑکوں کے دنوں جانب درخت لگو ا سکتی ہے۔ 5. پاکستان کے 17 فیصد رقبہ پر پاکستان ریلوے کا کنٹرول ہے۔ ریلوے ٹریک کے دونو ں جانب بھی درخت لگوائے جا سکتے ہیں ، 6. پاکستان کے ذرعی رقبہ میں فی ایکٹر درختوں کی تعداد مختص کی جائے اور مالکانہ حقوق درختوں کے ساتھ مختص کر دئے جائیں ۔ 7. شہری علاقوں میں جہاں کچی زمین کی کمی ہے حکومت مختلف فاراِسٹ زون بنائے۔جہاں پہ ایسے درخت لگائے جائیں جو دیر پا پتہ ساتھ رکھتے ہوں ۔ 8. شہروں میں گھر کے اندر اسی بیلوں کو فروغ دیا جائے جن کا پتہ چوڑا ہو۔ 9. واپڈا کے حکام جسطر ح عوام سے ٹیلی وژن کی فیس وصول کرتے ہیں اسی طرح عوام کو درخت لگانے پر بجلی کے بلوں میں انسینٹیو دیا جائے۔ 10. زرعی رقبہ کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ جن لوگوں کو زمیں کاشتکاری کے نقظہ نظر سے الاٹ ہوئی ہے انہیں اس بیچ کر کالونیاں بنانے سے روک دیا جائے۔ 11. پاکستان موٹر وئے کو دونوں جانب درخت لگائے گئے ہیں مگر بہت کم۔ سفیدے کے درخت کو کسی مناسب درخت سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان زمینوں کے کے لیے مناسب ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح بہت بلند ہو۔جیسے سیم زدہ زمین۔ اس ضمن میں موٹر وئے کے دونوں جانب باغات لگائے جا سکتے ہیں جیسے محکمہ ٹھیکے پہ دے کر ریونیو بھی کما سکتا ہے اور ملکی زر مبادلے میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ 12. مختلف این ۔ جی ۔اوز کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 13. درخت کاٹنا ناقابل معافی جرم ہو۔ جس پہ بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ 14. سکھ چین کا درخت پنجاب کے میدانی علاقوں میں بہت مفید ہے اس کا پتہ سال میں گیا را ماہ تک نہ گرتا ہے اور نہ زرد ہوتا ہے۔ حکومتیں عوام کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اگر حکومت نے ماحولیات پہ توجہ نہ دی تو پاکستان میں درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جانے کا امکان ہے کہ یہاں رہنا شاید ممکن نہ ہو۔ عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔انوائرمینٹل ٹرائبیونل کی تحصیل کی سطح پر بنچز قائم کیے جائیں ۔ فورسٹ ڈیپارٹمنٹ میں پولیس کو زیادہ باختیار بنا کر اسے اکاونٹ ایبل بھی بنایا جاے۔ہمیں من حیث القوم اس بارے میں شدید متفکر ہونے کی ضرورت ہے۔ صنعتی زونز میں صنعتی قوانین کا اطلاق یقینی بنایا جائے۔کسی کو روزگار کی آڑ میں کسی کی زندگی سے کھیلنے کا موقعہ دینا چاہیے۔اشرافیہ کے پاس دنیا بھر میں دیگر آپشنز موجود ہیں لیکن اگر ہم نے عام آدمی پارٹی کے نقطہ نظر سے نہ پلاننگ کی تو اور اپنے طرز عمل میں بہتری لانے کی سعی نہ کی توعام آدمی کدھر جائیں گے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔