Saturday 4 December 2021

تقسیم ہندوستا ن کے وقت کشمیر کا حصول کسی ملک کی ترجیح نہ تھا۔

0 comments
تاریخ مسخ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ ہم پانی غلطیوں کا ٹھیک سے تخمینہ نہیں لگا پاتے۔ کشمیر کے مسئلے نے ہمیں 75 سال سے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ لیکن ہم نے کبھی اس پہ کھل کر اپنی غیر سنجیدگی کو تسلیم نہیں کیا۔ نہ ہی مطالعہ پاکستان نئی نسل کو یہ بتا پائی کہ کشمیر کو مسئلہ بنانے میں ہم نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر پہ بھارتی قبضہ کی داستان کے پیچھے ہماری عدم دلچسپی کارفرماں تھی ۔ ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت کیا کشمیر ہماری ترجیح تھا؟ کیا کشمیر کو میدان جنگ کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پہ ہم نے کھو دیا؟ مسئلہ کشمیر کی ناکامی میں سب سے متحرک کردار کون سا ہے؟ بھارتی صحافی کلدیپ نئیر اپنی کتاب Beyond the Lines—An Autobiography میں لکھتے ہیں کہ سردار پٹیل کا یہ مسلسل نقطہ نظر رہا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے ۔وہ لکھتے ہیں کہ نیئر لکھتے ہیں کہ میرا تاثر یہ ہے کہ اگر پاکستان صبر کرتا تو اسے کشمیر خود بخود مل جاتا۔ ہندوستان اسے فتح نہیں کر سکتا تھا، اور نہ ہی کوئی ہندو مہاراجہ آبادی کی ساخت کو نظر انداز کر سکتا تھا جس میں زیادہ تر مسلمان تھے۔جب کہ پاکستان نے اس کے برعکس بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کے دنوں میں ہی قبائلیوں کو باقاعدہ فوج کے ساتھ کشمیر بھیج دیا۔
کلدیپ نیئر آگے کہتے ہیں کہ دوسری طرف یہ سچ ہے کہ نہرو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند تھے اور پٹیل اس کے مخالف۔ یہاں تک کہ جب نئی دہلی کو مہاراجہ کی ہندوستان سے الحاق کی درخواست موصول ہوئی تو پٹیل نے کہا تھا ''ہمیں کشمیر کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہیے ہمارے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے''۔وہ اسی بات کے قائل تھے کہ پاکستان کو حیدر آباد کی بات نہیں کرنی چاہیے اور کشمیر پاکستان کو جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں سابق پاکستان کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی اپنی کتاب The Emergence of Pakistan میں ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’پارٹیشن کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے سردار پٹیل جو کہ پاکستان کے ایک تلخ دشمن لیکن نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھے۔ دونوں وزرائے اعظم (لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو) کے درمیان ہونے والی بات چیت میں سے ایک میں جس میں وزیر داخلہ سردار پٹیل اور میں بھی موجود تھے لیاقت علی خان نے جوناگڑھ اور کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی موقف کی عدم مطابقت پر بات کی۔ اگر جوناگڑھ اس کے مسلم حکمران کے پاکستان سے الحاق کے باوجوداس کی ہندو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کا تھاتو کشمیراس کی مسلم اکثریت کے ساتھ اس کے ہندو حکمران کے ہندوستان سے الحاق کے مشروط دستاویز پر دستخط کرنے کی وجہ سے ہندوستان کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟ اگر جوناگڑھ کے مسلمان حکمران کے دستخط شدہ الحاق کا دستاویز درست نہیں تھا تو کشمیر کے ہندو حکمران کے دستخط کردہ الحاق کا دستاویز بھی باطل تھا۔ اگر عوام کی مرضی جوناگڑھ میں غالب آنی تھی تو کشمیر میں بھی غالب آنی چاہیے۔ بھارت جوناگڑھ اور کشمیر دونوں پر دعویٰ نہیں کر سکتا۔ چوہدری محمد علی لکھتے ہیں 'جب لیاقت علی خان نے یہ ناقابلِ تردید نکات پیش کیے تو پٹیل خود پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے "آپ جوناگڑھ کا موازنہ کشمیر سے کیوں کرتے ہیں؟ حیدرآباد اور کشمیر کے بارے میں بات کریں جہاں ہم ایک معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ چوہدری محمدعلی مزید تبصرہ کرتے ہیں کہ پٹیل کا اس وقت اور اس کے بعد بھی نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان کی مسلم اکثریتی علاقوں کو عوام کی مرضی کے خلاف اپنے پاس رکھنے کی کوشش طاقت کا نہیں بلکہ ہندوستان کی کمزوری کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کشمیر کو پاکستان اور حیدرآباد کو ہندوستان جانے دینے پر راضی ہو جائیں تو کشمیر اور حیدرآباد کے مسائل پرامن طریقے سے حل ہوسکتے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان کے باہمی فائدے میں ہیں۔
سردار شوکت حیات جو کہ کشمیر آپریشن کے نگران تھے اپنی کتاب The Nation That Lost Its Soulمیں اسی تسلسل کو آگے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح لارڈ ماونٹ بیٹن نے انہیں ایک ڈنر پہ سردار پٹیل کا پیغام پہنچایا کہ پاکستان کشمیر کو حیدر آباد دکن کے بدلے میں لے سکتا ہے جس کے ساتھ نہ پاکستان کا کوئی زمنینی رابطہ ہے نہ فضائی۔ سردار شوکت حیات آگے کہتے ہیں کہ یہ پیغام دینے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور کے گورنمنٹ ہاؤس میں سو گئے۔ میں کشمیر آپریشنز کا مجموعی انچارج ہونے کے ناطے لیاقت علی خان کے پاس گیا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ چونکہ ہندوستانی فوج کشمیر میں زبردستی داخل ہو چکی ہے اور ہم کشمیر کو قبائلی مجاہدوں یا اپنی ناکافی مسلح افواج کے ساتھ الحاق کرنے سے قاصر ہوں گے ہمیں پٹیل کی تجویز کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ نوابزادہ (لیاقت علی خان) میری طرف مڑ کر بولے ’’سردار صاحب کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ کشمیر کی چٹانوں کی خاطر پنجاب سے بڑا حیدرآباد چھوڑ دوں؟‘‘ میں وزیر اعظم کے ردعمل اور ہمارے جغرافیہ سے ناواقفیت اور ان کی دانشمندی کی کمی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے اور حیدر آباد حاصل کرنے کی امید میں پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا، جو کہ بہترین طور پر صرف ایک عجیب خواہش مندانہ سوچ تھی۔ اس کا پاکستان سے کہیں تعلق نہیں تھا۔ احتجاج کے طور پر میں نے کشمیر آپریشنز میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
سیف الدین سوز کانگریس کے سابق وزیر اور منجھے ہوئے پارلیمنٹرین ہیں وہ اس واقعہ کو زیاد تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔جب ہماری فوج سری نگر میں اتری تو اسی دوپہر ماؤنٹ بیٹن لاہور گئے۔ پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح، وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستان کے چار وزراء کے ساتھ عشائیہ تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہامیں ہندوستان کے طاقتور آدمی سردار پٹیل کا پیغام لایا ہوں۔ کشمیر کو لے لو اور حیدرآباد دکن کو بھول جاؤ یہ تم سے کسی بھی طور جڑا نہیں ہے۔ جہاں تک جناح کا تعلق ہے وہ ایک وکیل تھے۔ انہوں نے جوناگڑھ کے لیے کشمیر کے تبادلے کی تجویز پیش کی کیونکہ دونوں ریاستیں کئی طریقوں سے ایک دوسرے کی آئینہ دار تھیں۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے غیر مسلم حکمران نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں شامل کر لیا تھا۔ جوناگڑھ ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے مسلم حکمران نے اپنی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کر لی تھی۔ جناح نے دلیل دی کہ چونکہ جوناگڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ہے اس لیے انہیں پاکستان کے گورنر جنرل ہونے کے ناطے ہندوستان کے ساتھ ریاست کے مستقبل پر بات کرنے کا حق ہے۔ لیکن چونکہ حیدرآباد کے حکمران نے اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے اسے ریاست کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے یا حیدرآباد کے حکمران کو اپنی مرضی کے خلاف اپنی ریاست کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اے ۔جی نورانی جو ایک تسلیم شدہ اسکالر ہیں اور مسئلہ کشمیر پر کافی علم رکھتے ہیں ا نہوں نے اپنے ایک مضمون A tale of two states میں لکھتے ہیں کہ 'ایک چوتھائی صدی بعد 27 نومبر 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے لنڈی کوتل میں ایک قبائلی جرگے کو بتایا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ اور ریاستوں کے وزیر۔ سردار پٹیل نے ایک مرحلے پر جوناگڑھ اور حیدرآباد کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن پاکستان نے بدقسمتی سےاس پیشکش کو قبول نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف تینوں آبائی ریاستیں کھو دیں بلکہ مشرقی پاکستان بھی۔

Friday 12 November 2021

وزیر اعظم صاحب! خود کو تاریخ کے رحم و کرم پہ مت چھوڑیں

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ نے مکہ میں اسلام کی دعوت اسلام کا آغاز کیا تو انہی دنوں میں ایران اور روم میں جنگ لگ گئی۔ جس میں ایران نے روم زبردست شکست سے دوچار کیا اور کئی علاقے چھین لیے۔ اہل روم عیسائی ہونے کے ناطے اسی خدا کے وجود کے قائل تھے جس کا پرچار روز قریش مکہ کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوتا تھا ۔جبکہ اہل ایران مجوسی تھے اور آگ کی پوجا کرنے کے باعث اہل مکہ کے ہم مذہب مشرک تھے۔ ایران کی اس فتح کو اہل مکہ نے طعنہ و تشنیع کے طور پہ استعمال کیا کہ آپ کا خدا اپنے پیروکاروں کو بچا نہیں سکا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ روم میں بھی اس کا ذکر کیا اور پیشگوئی کی کہ اہل روم دس سال سے کم عرصہ میں دوبارہ غالب آ جائیں گے۔ اسلام کی حقانیت پہ یہ پیشگوئی ایک بہت بڑی دلیل تھی۔ کیونکہ بظاہر ایسا ہونا نا ممکن نظر آ رہا تھا۔ ہرقل جب روم کا قیصر بنا تو اس نے اپنی بکھری ہوئی سلطنت کو سنبھالا اصلاحات کیں اور دس سال سے بھی کم عرصہ میں ایران کو شکست دے کر قرآن کہ یہ پیشگوئی پوری کر دی ۔مورخین کا خیال ہے کہ یہ ناممکن فتح حاصل کرنے کے بعد ہرقل اگر مر جاتا تو وہ اپنے سے قبل اور اپنے سے بعد کی تاریخ کا سب سے کامیاب بادشاہ کے طور پہ جانا جاتا۔ لیکن اس کی زندگی کے آخری ایام شراب نوشی کی کثرت اور بد انتظامی کی نظر ہوگئے۔ جس کے باعث اس کی وہ عظیم ناممکن کامیابی بھی گہنا گئی۔ 2013 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو عمران خان ان کے لیے ایک مسلسل درد سر ثابت ہوا۔ پہلے انتخابی دھاندلی اور بعد میں پانامہ پیپرز کی آڑ میں وہ پانچ برس تک سڑکوں پہ رہے اور رائے عامہ کو منظم کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے جلسوں کے دوران ایک مثالی اسٹینڈ لیا اور عوام کے سامنے ایک خیالی طرز حکومت کا امیج کھڑا کیا۔ انہوں نے حکومت کے ہر کام پہ تنقید کی۔ نوجوان نسل اور ایلیٹ کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ پولنگ بوتھ پہ بھی لانے پہ کنوینس کیا۔ جس کا اظہار الیکشن کے دوران بلند ترین ٹرن آؤٹ کی صورت میں ہوا۔ اس طرح نوجوان نسل عمران خان پہ یقین کر بیٹھی کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دور اقتدار ہی ہر مسئلہ کی وجہ ہے ۔ 2018 کے الیکشن میں عمران خان حکومت میں آئے تو ان پہ اقتدار کی زمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان توقعات کا ہمالیہ بھی تھا جو انہوں نے خود اپنے ساتھ وابستہ کروا رکھیں تھیں۔ انہوں نے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ حکمران کا چور ہونا بتایا ۔لیکن اپنے دور حکومت میں ان کی قیمتوں کو کنٹرول نہ کر سکے۔ دھرنوں کے دوران وہ خود نوجوانوں کا وزیراعظم کہہ کر سوال پوچھتے کہ کیا آپ وزیراعظم کشکول لیکر بھیک مانگتا ؟ اس پہ مذید فرماتے کہ آپ کا وزیراعظم خود کشی کر لے گا لیکن بھیک نہیں مانگے گا لیکن تین سالوں میں اگر کسی چیز میں تسلسل ہے تو وہ آئی ایم ایف سے قرضوں کی وصولی میں ہے۔ انہوں نے گورنر اسٹیٹ بنک اور مشیر خزانہ براہ راست آئی ایم ایف کے مقرر کروائے جو تاریخ میں پہلی بار پریس کانفرنس میں مہنگائی کے فوائد عوام کو گنواتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے سامنے پنڈورا پیپرز آئے جن میں کئی وزرا اور ملٹری آفیسروں کے نام آئے تو وزیر اعظم صاحب نے پانامہ پیپرز والے خان صاحب کی زیارت عوام کو نہیں کروائی بلکہ اپنی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے کر سطحی نوعیت کے مسائل میں میڈیا کی توجہ مبذول کروا کر اسے پس پشت ڈال دیا۔ جنرل (ر)عاصم باجوہ کی امریکہ میں کمپنیوں کی موجودگی میں کسی تفتیش کی ضرورت کو اس لیے محسوس نہ کیا کہ وزیر اعظم نے اپنے مشیر خاص سے ذاتی وضاحت لے لی اور اسے ہی کافی سمجھا۔ انہوں نے عوام کو یقین دلا رکھا تھا کہ ان کے پاس ماہرین کی دو سو افراد پہ مشتمل ٹیم موجود ہے ۔جو حالات کو راتوں رات بدل دیں گے لیکن بعد ازاں انہوں نے وزراء کو جس طرح تبدیل کیا ان کے دعویٰ کی قلعی کھل گئی کہ ان کے پاس وزیر خزانہ وزیر داخلہ سے لیکر انفارمیشن منسٹر تک کے وزیروں کا شدید کال ہے۔ خان صاحب کا آئے دن وزیر تبدیل کرنا یا انہیں عہدوں سے ہٹانا ویسا نہیں جیسا وہ بیان کرتے ہیں کہ کپتان بہتر سمجھتا ہے کہ کس وزیر کو کس پوزیشن پہ کھلانا ہے اور کسے ڈراپ کرنا ہے بلکہ پارلیمانی نظام اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ کام کرتا ہے جس میں ایک وزیر کا ناکام ہونا پوری کابینہ کی ناکامی ہے۔ اور کسی ایک وزیر کا اچھا کام کرنا پوری کابینہ جس کا وزیراعظم سربراہ ہوتا کی نیک نامی کا سبب بنتا۔ ان کا وزراء کو تبدیل کرنا یا ان کے قلمدان تبدیل کرنا خود اپنی ہی حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ جو کہ گزشتہ تین سالوں میں انہوں نے درجنوں بار پیش کی ہے ۔ عمران خان 92 کے ورلڈ کپ کی ماند اب بھی اسی بات کے منتظر ہیں کہ اگر ویسٹ انڈیز آسٹریلیاکو ہرا کو خود نیوزی لینڈ سے ہار جائے تو پاکستان کا کوئی چانس بن سکتا ہے۔ کرونا کی وبائی مرض کے دوران بین الاقوامی امداد کا انتظار حکومت کو پہلے دن سے تھا لیکن حالات اس درجے کے خراب نہ ہو سکے تو یہ موقعہ بھی قدرت نے فراہم نہ کیا۔ اشیا خورد نوش کی قیمتوں پہ حکومتی کنٹرول کا نہ ہونا، عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ، انڈسٹری کا پہیہ نہ چل سکنا اور اب ڈینگی پہ حکومت کی سست روی حکومت کی ناکامی کی چند مثالیں ہیں جن پہ حکمران جماعت کو انتخابات میں عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حزب مخالف والے کپتان کی حکمران کپتان نے ڈٹ کر مخالفت کی ہے۔ ہر اس بات سے انکار کیا جس کا وعدہ حزب مخالف کا کپتان کیا کرتا تھا۔ 2013میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے ن لیگ کو لوڈ شیڈنگ ورثے میں ملی تھی لیکن اس نے جس طرح لوڈ شیڈنگ پہ کنٹرول کیا وہ قابل تعریف تھا۔ ڈینگی کی وبا پہ قابو پانا بھی دنیا بھر میں نیک نامی کا باعث بنا۔ انڈسٹری کے پہیے کو متحرک کیا موٹر ویز کا ملک بھر میں جال بچھایا۔ ایسے میں عمومی تاثر کے مطابق ن لیگ کو شکست دینا ناممکن تھا۔لیکن عمران خان نے اسے شکست دے کر ہر قل کی طر ح نا ممکن کو ممکن بنا دیا ۔ان حالات میں بلکل ہرقل کی مانند عمران خان صاحب اگر پچھلی حکومت کو اپنی کامیاب تحریک کے ذریعے ختم کرنے کے بعد اگر منظر سے ہٹ جاتے تو وہ اپنے سے قبل اور اپنے سے بعد میں آنے والوں کے لیے ایک کامیاب رہنما کے طور پہ جانے جاتے ۔وہ تاریخ میں امر ہو جاتے۔ بھٹو تو شاید کبھی مر جائے لیکن خان صاحب کبھی نہ مرتے۔ لیکن خان صاحب نے ہرقل بننا پسند کیا اب خود تاریخ کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ بات تو پہلے دن سے طے تھی کہ ان میں انتظامی صلاحیتوں کا شدید فقدان ہے لیکن اب وہ اپنی ایمانداری کی قلعی بھی کھولتے جا رہے ہیں ۔اپنے کرم فرماؤں اور ہمنواؤں کی شدید کرپشن پہ خاموشی اور حوصلہ افزائی ان کی شوکت خانم کے پرجیکٹ پہ بھی انگلیاں اٹھانے کا باعث بنے گی۔فارن فنڈنگ کیس میں عدالت سٹے آرڈ ر حاصل کر نا اور شوکت خانم ہسپتال کے فنڈز کا کبھی آڈٹ نہیں چھپا لوگ پوچھیں گے ہمارا دیا گیا صدقہ کہاں گیا۔تب خان صاحب کے پاس کوئی منی ٹریل نہیں ہو گی اور لوگ انہیں تاریخ کا بھیانک کردار سمجھ کر فراموش کرنے کو ترجیح دیں گے۔

Tuesday 24 August 2021

ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونے کا نام حسینیت ہے

0 comments
امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ میں اس نقطہ ماسکہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے گرد امت کے تمام گروہ اپنا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شعیہ سنی تقسیم اگرچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ہو چکی تھی لیکن شہادت امام حسین علیہ السلام نے اس تقسیم کی خلیج کو مزید گہرا، وسیع اور منظم کر دیا۔امام حسین علیہ السلام انتہائی زیرک انسان تھے وہ اپنے والد بزرگوار خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور اپنے بڑے بھائی سیدنا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ اہل کوفہ کی بے وفائی کے چشم دید گواہ ہونے کے باوجود اہل کوفہ کے دام فریب میں کیسے آگئے؟کن محرکات کے امام حسین علیہ السلام نے اہل کوفہ کی دعوت کو 0قبول کر لیا؟ کیا امام حسین علیہ السلام پیش آنیوالے حالات کا درست ادراک نہیں رکھتے تھے؟ ان سوالات کا جائزہ لینے سے قبل اگر ہم یہ بات پہلے سمجھ لیں کہ امام حسین علیہ السلام کو پیش آنیوالے حالات کوئی پوشیدہ امر نہیں تھا تو باقی سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے میں آسانی پیدا ہو جائیگی۔ناصرف امام حسین ؑ بلکہ اہل مدینہ اور مکہ میں بیشتر افراد اس بات کا انتہائی واضح ادراک رکھتے تھے کہ عنقریب شہادت امام حسین ؑ کی صورت میں بہت بڑا المیہ رو نما ہونے کو ہے ۔ جن میں سے چند ایک افراد کی امام حسین ؑ کے عراق کی جانب سفر پہ رائے دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے بیٹے اور امام حسین ؑ کے بھائی تھے جب آپ کو امام حسینؑ کی کوفہ روانگی کا علم ہوا تو آپؑ کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ "میرے بھائی آپ مجھے سب لوگوں سے پیارے ہیں ۔ اور میری نظروں میں آپ کی عزت بہت زیادہ ہے۔مخلوق میں ایسا کوئی شخص نہیں جو میری نصیحت کا آپ سے زیادہ حقدار ہو۔آپ یوں کریں کہ خود بھی یذید بن معاویہ کی بیعت نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے دوسرے شہروں کو بھی ایسا کرنے سے روکیں۔پھر لوگوں کے پاس قاصد بھیج کر انہیں اپنی طرف بلائیں ۔ اگر وہ آپؑ کی بیعت کر لیں تو ہم اس پر اللہ کی تعریف کریں گے۔اور اگر ان کا کسی اور پہ اتفاق ہو تا ہے تو اللہ اس سے نہ آپ کے دین میں کوئی کمی کرے گااور نہ ہی آپ کے عقل اور مردانگی میں کوئی کمی آئیگی۔میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کسی شہر میں کسی جماعت کے پاس جائیں اور ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے اور کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہوں اور کچھ لوگ آپ کے خلاف ہوں اور وہ آپس میں لڑپڑیں تو پہلے نیزے کا شکار آپ ہو جائیں ۔اس طرح امت کے ہر اعتبار سے افضل اور بہتر انسان کا خون رائیگاں چلا جائے گا۔ اس پر امام حسین ؑ نے جب پھر سے جانے کا ارادہ ہی ظاہر کیا تو وہ پھر سے گویا ہوئے کہ پھر آپ ؑ مکہ چلے جائیں ۔ اگر وہاں اطمینان میسر ہو تو ٹھیک ہے ورنہ شہر شہر پھرتے رہیں اورلوگوں کے فیصلے کا انتظارکریں ۔ اس پر امام حسین ؑ نے ارشاد فرمایا میرے بھائی تم نے میری خیر خواہی کی اور میں امید کرتا ہوں کہ تمہاری رائے درست ہو گی۔لیکن امام حسین ؑ کوفہ جانے پہ مصر رہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ امام حسین ؑ کے والد کے چچازاد بھائی تھے ۔جب انہیں آپ ؑ کی کوفہ رانگی کا علم ہوا تو آپ ؑ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ آپؑ کی عراق کی طرف روانگی کا سن کر بہت پریشان ہوں ۔کیا آپ ایسے لوگوں کی طرف جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال کر ملک پہ قبضہ کر لیا ہے؟ اگر تو ایسا کر لیا ہے تو بڑے شوق سے جائیے۔لیکن اگر ایسا نہیں ہوا اور حاکم بدستور ان کی گردنیں دبائے بیٹھا ہے اور اس کے کارکن مسلسل اپنی کارستانیاں کر رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو فتنہ اور جنگ کی طرف بلا رہے ہیں ۔میں ڈرتا ہوں کہ وہ لوگ آپ کو دھوکہ نہ دیں اور جب دشمن کو طاقتور دیکھیں تو آپ کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیں ۔ اس پر امام حسین ؑ نے حالات پہ نگاہ رکھنے اور اللہ سے استخارہ کرنے کی بات کرکے بات ٹال دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہکو لگا کہ امام حسین ؑ ان سے شائد کچھ چھپا رہے ہیں تو عین کوفہ روانگی کے وقت پھر امام حسین ؑ سے کہنے لگے کہ " ائے چچا زاد میں خاموش رہنا چاہتا تھا لیکن خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں اس راہ میں آپؑ کی ہلاکت اور بربادی دیکھ رہا ہوں۔اہل عراق دغا باز قسم کے لوگ ہیں ان کے دھوکے میں نہ آئیں ۔ یہیں قیام کریں یہاں تک کہ اہل عراق اپنے دشمن کو نکال باہر کریں ۔اگر آپ ؑ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیں وہاں قلعے اور دشوار گزار پہاڑ ہیں ۔ ملک کشادہ اور لوگ آپ کے والد کے ہم نوا بھی ہیں ۔ ان لوگوں سے الگ تھلگ رہیں ۔خطوط اور قاصدوں کے ذریعے اپنی دعوت پھیلاتے رہیں۔مجھے یقین ہے کہ اگر آپ یہ کام کریں گے تو کامیاب ہوجائیں گے۔ ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسین ؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہارے باپ اور بھائی کے ساتھ اہل عراق نے جو کیا میری آنکھوں کے سامنے ہے۔تم ان لوگوں کے پاس جا نا چاہتے ہو حالانکہ وہ دنیا کے پجاری ہیں ۔تمہارے ساتھ وہی لوگ قتال کریں گے جنہوں نے مدد کا وعدہ کیا ہے۔اور تمہیں وہی لوگ بے یارو مدد گار چھوڑ جائیں گے جنھیں تم ان لوگوں سے پیارے ہو جن کی وہ معاونت کریں گے۔ ان افراد کے علاوہ جن افراد نے امام حسین ؑ کو کوفہ جانے سے نہ صرف روکا بلکہ اہل عراق کے بے وفا اور بذدل ہونے کی نشاندہی کی ان میں حضرت عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن زبیر ،ابو سعید خذری، حضرت جابر بن عبداللہ، آپ کے بہنوئی اور حضرت زینب ؑ بنت علی ؑ کے شوہر حضرت عبداللہ بن جعفر طیار ، ابو واقد لیثی، عمرہ بنت عبد الرحمان، عبداللہ بن مطیع، سعید بن مسیب،عمرو بن سعید بن العاص رضوان اللہ تعالی عنہ اور عرب نے عظیم شاعر فرذق سمیت کئی دیگر عظیم ہستیاں شامل تھیں ۔ ان افراد کی امام حسینؑ سے ہونیوالی گفتگو سے یہ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین ؑ کو پیش آنیوالی مشکلات سب پہ عیاں تھیں تو ایسے میں امام حسین ؑ بھلا کیسے ان سے پردے میں رہ سکتے تھے۔یعنی اہل کوفہ کے رویے ان کے ماضی کے آئینے میں امام حسین ؑ کی آنکھوں کے سامنے تھے ۔ یزید کے مسند اقتدار پہ بیٹھتے ساتھ ہی اہل کوفہ نے امام حسین ؑ کو اپنے ہاں مدعو کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہزاروں خطوط اور کئی وفود کے ذریعے اما حسین ؑ کو اپنی بیعت کی یقین دہانی کروا رہے تھے ۔ امام حسین ؑ سے کوفہ روانگی سے متعلق جس کسی نے بھی گفتگو کی امام حسین ؑ نے کسی سے کوئی بحث نہیں کی بلکہ ہر کسی کو ایک ہی بات کی کہ اہل کوفہ کےدعوتی خطوط ان کے پاس ہیں ۔ جو امام حسین ؑ نے مختلف تھیلوں میں باندھ رکھے تھے جن کی تعداد تاریخ میں ہزاروں بیان ہوئی ہے۔ یعنی اس قدر حالات کی سنگینی کے بیان پر بھی امام یہ ہی فرماتے کہ میرے پاس اہل کوفہ کے ہزاروں میں خطوط موجود ہیں۔ یہاں تک کہ مقام اشراف پہ ابن زیاد کے لشکر جس کی قیادت حر بن یزید کر رہا تھا سے ملاقات ہوئی تو اس وقت بھی امام حسین ؑ نے اہل کوفہ کے خطوط کو ہی اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔یہ ہی آپ نے کربلا میں یزیدی لشکر کے سربراہ عمر بن سعد کے ساتھ مذاکرات میں بیان کیا کہ میری آمد کا مقصد یہ تھیلوں میں پڑے اہل کوفہ کے خطوط ہیں ۔ امام حسین ؑ اہل کوفہ کی دعوت پہ تشریف لائے۔ آپ ؑ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چچازاد حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ بھیجا۔ ابتدائی طور پہ ۱۸ ہزار کے لگ بھگ افراد نے بیعت کی لیکن عین وقت پہ سبھی نے اپنی جان بچانے کے لیے امام حسین ؑ سے کو کربلا میں تنہا چھوڑ دیا۔ امام حسین ؑ اوپر درج کیے گئے صحابہ اکرام میں سب سے زیادہ زیرق انسان تھے انہیں خود بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اہل کوفہ کی سرشت میں بے وفائی اور بذدلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن اگر امام حسین ؑ دیگر صحابہ اکرام کی بیان کردہ حکمت عملی پہ عمل پیرا ہوتے تو یقینا آپ تخت شام کے لیےاتنا تر نوالہ ثابت نہ ہوتے۔ ایک بہت بڑی خونریزی کے بعد آپ ؑ کے کامیاب ہونے کے بھی واضح امکان ہو سکتے تھے۔لیکن اس سے مستقبل میں انقلاب ہر تخت شام کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک اہل کوفہ کی منافقت کی نظر ہو جاتی۔ کوئی حق کے لیے اٹھنے والی تحریک کوفیوں کے شر سے محفوظ نہ رہ پاتی۔ آپؑ کے اس سفر سے جہاں امام حسین ؑ حق کے استعارے کے طور پہ ابھرے وہیں پہ تخت شام ظلم اور اہل کوفہ آستینوں کے سانپ کے طور پہ متعارف ہوئے۔ اگر امام حسین ؑ کوفہ کی جانب سفر نہ کرتے اور یزید کا اقتدار مستحکم ہو جاتا تو اہل کوفہ ہمیشہ اسی بات کا طعنہ دیتے کہ ہم نے امام حسین ؑ کو اپنی قیادت کی دعوت دی تھی لیکن امام حسین ؑ کا قیادت سے پیچھے ہٹ جانا یزید کے اقتدار کو مستحکم کرنے کا سبب بنا۔ امام حسین ؑ اپنے ضمیر پہ اہل کوفہ کا یہ طعنہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ ؑنے اپنی اور اپنے اہل خانہ اور جانثاروں کی قربانی دیکر حق کی ہر تحریک کو اہل کوفہ سے خبردار کیا ہے۔ امام حسین ؑ تمام تر خطرات سے اگاہ ہونے کے باوجود صرف اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔ اور یہ ہی انسانیت کی معراج ہے کہ اسے اپنے ضمیر کے سامنے کھڑا ہونے میں کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

Saturday 8 May 2021

طلاق کا بڑھتا رجحان اور بیرونی دنیا میں قائم ہونے والے بہتر مثالیں

0 comments
دنیا کے چوتھے امیر ترین انسان اور مائیکرو سوفٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس اور ان کی سابقہ اہلیہ ملینڈا کے مابین طلاق پہ پاکستان میں ایک حیرت کا سماں ہے کہ کیا اتنی چپ چاپ سکون کے ساتھ اور بغیر کسی تہمت کے بھی بھلا کوئی طلاق ہوتی ہے۔ چلیں اچھا ہوا ہم پہ طلاق کی ایک یہ جہت بھی کھلی کہ ضروری نہیں کہ عورت کو چھوڑنے سے پہلے اسے بد چلن اور نافرمان کہہ کر کسی اور قابل بھی نہ چھوڑا جائے۔ لیکن ایک اور پہلو بھی نہایت عمدہ ہے جسے ہمارے ہاں قانون کی شکل میں نافذ کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے طلاق کی صورت میں عورت کو بے آسرا اور معاشرے کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے مرد کی جائیداد سے حصہ دینا۔ بل گیٹس اس طلاق کے بعد اپنی جائیداد کا نصف تقریبا 73 ملین ڈالر اپنی سابقہ بیوی کو دینے کے پابند ہیں۔ اس سے قبل امریکی ای۔ کامرس کی کمپنی ایمیزون کے مالک بھی اپنی بیوی کو طلاق کی صورت میں دنیا کی مہنگی ترین طلاق دے چکے ہیں ۔ ہم نے جب سے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہے اسے اپنے مفاد کے لیے شیلڈ کے طور پہ ہی استعمال کیا ہے۔ ہمارے قانون ساز ادارے کبھی بھی ایسی قانون سازی نہیں کر سکے جس سے معاشرے میں تربیت کے پہلو نکل سکیں ۔ پاکستان میں بھی طلاق کی شرح نہایت بلند ہے۔ لیکن معاشرے میں کبھی اس کے تدارک کے لیے کوئی بھی قدم نہ ہی ریاست کی جانب سے اور نہ جنہوں نے مذہب کا علم اٹھایا ہوا ہے ان کئ جانب سے اٹھایا گیاہے ۔اس سے قبل انڈین سپریم کورٹ نے ایک مسلمان عورت کی درخواست پر مسلمان مرد کے ایک ہی نشست میں تین بار طلاق دے کر شادی کے مقدس بندھن کو ختم کرنے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ایسا کرنے والے کو جرمانے کے ساتھ تین برس تک قید کی سزا بھی سنائی جاسکے گی۔ عورت معاشرے کی چکی کا وہ پاٹ ہے جس کے بغیر معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ عورت خود اسی چکی میں پس رہی ہے۔ اسلام نے جو عورت کو مقام دیا آج اس کی سب سے زیادہ نفی اسلامی معاشرے میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ طاقت کی زیادتی انسان کو اندھا کر دیتی ہے جس سے وہ حق تلفی پہ اتر آتا ہے۔ نکاح عورت اور مرد کے مابین ایک باہمی سمجھوتے کا نام ہے جو دونوں کو یکساں حقوق دیتا ہے ۔نکاح سے مرد کو عورت پہ حکمرانی کا اختیار قطعاََ نہیں مل جاتا ۔مرد کے پاس طلاق کا ایک ایسا ہتھیا ر ہے جس کا استعمال معاشرے کو تباہی کی نہج پہ لے آتا ہے۔ طلاق ایک راستہ ہے اس باہمی سمجھوتے کو ختم کرنے کا ۔ لیکن اسے جذبات کی بھینٹ چڑھا کر ختم کرنا پشیمانی ، خاندانی نظام کی تباہی اور بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اکثر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ ایک ہئ نشست میں تین طلاقیں دے کر نکاح ختم کر دیتے ہیں لیکن جذبات کے بہاو سے باہر نکلتے ہی انھیں اپنے فیصلے کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے تو ہاتھ ملنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ اسلام نے طلاق کی متعدد اقسام بیان کی ہیں ۔ جنھیں بطور قانون نافذ کر کے اس ہیجان خیز کیفیت سے نکلا جا سکتا ہے۔ شرعی ماہرین ایک ساتھ تین طلاقوں کو طلاق بدعت کہتے ہیں ۔بدعت کے مسئلے پر امت میں اتنے سخت موقف کے باوجود ایک ساتھ تین طلاقوں کو امت نے گلے گلا کر معاشرتی نظام کو تہس نہس کر دیا ہے۔حکومت اس خوف سے باہر نہیں نکل پا رہی کہ کسی شرعی مسئلے پہ پارلیمان کو حرکت میں لائی تو مذہبی جماعتوں کا ردعمل نا قابل برداشت ہو جاتاہے۔مذہبی حلقوں نے اسلام میں تحقیق کو شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے چاہے کسی بنا پر کسی کی زندگی تباہ ہی کیوں نہ ہو جائے وہ اس نزاکت سے خود کو ماورا سجھتے ہیں ۔ ایسے میں حکومت ہی کو معاشرے کو صراط مستقیم پر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ نبی پاکﷺ نے تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی قرار دیا ۔حضرت ابو بکر صدیق ؒ نے بھی اپنے دور خلافت میں تین طلاقوں کو ایک طلاق کے طور پہ ہی نافذ رکھا۔ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں دو سال تک اسی حکم کو نافذ رکھا پھر وقتی ضرورتوں کے تحت ایک حکم نامے کے تحت ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دے دیا۔ اگر ایک حکومت وقتی ضروریات کے پیش نظر ایک حکم نامہ جاری کر سکتی ہے تو کوئی دوسری حکومت بھی کسی دوسری صورت حال میں اس کے بر عکس بھی کوئی قانون نافذ کر سکتی ہے۔ انڈین سپریم کورٹ کے قابل تحسین فیصلے نے کم از کم ہندوستان کی مسلمان خواتین کو ایک طرح سے راحت ضرور پہنچائی ہے کہ اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو ان کے پاس رجوع کرنے کی مہلت موجود ہو گی۔ اسلام کی تشریح کے لا متناہی اختیار علماء کو دے دینے سے اسلام ناقابل عمل مذہب بننے کے راستے پہ گامزن ہو رہا ہے۔ علماء اپنے مسلکی وابستی سے نکلنے کو تیار نہیں اور ان کے مسلک کا ماضی انہیں مستقبل میں جھانکنے کی اجازت نہیں دیتا۔طلاق جائز ہونے کے باوجود اللہ تعلیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔ اگر ایک مسئلے پر ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں تو ان میں بہترین عمل کو ریاستی طاقت سے نافذ کرنے میں اسلام کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ طلاق ہی کے مسئلے پر ایک سے زیادہ آپشن موجود ہیں ۔ جیسا کہ طلاق کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی ایک وقت میں چاہیے جتنی بار بھی طلاق کا لفظ بول دے وہ ایک ہی طلاق تصور کی جائے گی۔ اگر شوہر اپنی بیوی سے تین ماہ تک رجوع نہیں کرتا تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اس دوران دونوں اپنی باہمی رضا مندی سے کسی وقت بھی اپنے رشتے کو بچا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مختلف وقفوں سے بھی تین طلاق دینے کی صورت موجود ہے۔جس سے سوچ اور بچار کے لیے مناسب ترین وقت میسر آجاتا ہے جسے "کولنگ پیریڈ" کہا جاتا ہے۔ایک صورت خلہ کی بھی ہے جس میں عورت بھی نکاح کے بندھن کو توڑ سکتی ہے۔لیکن اس کے لیے اسے عدالتی کاروائی کے ذریعے عدالت سے تنسیخ نکا ح کا سرٹیکفیکیٹ لینا پڑتا ہے۔ خاندانی نظام کی حفاظت کی خاطر طلاق کاحق بھی شوہر سے لے کر خلہ کے طرز پر عدالت کو دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح سے کہیں یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ مرد زیاد باشعور ہے جو اس طلاق کے حق کو عدل تحمل اور فہم و فراست کے ساتھ استعما ل کر رہا ہے۔دوسرا امریکی قانون کی طرز پہ طلاق کے بعد عورت کو بے سہارا چھوڑنے کی بجائے مرد کی جائیداد دے حصہ دینے کے اہتمام سے بھی خاندانی نظام میں سنجیدگی آ سکتی ہے۔پاکستانی شرعی عدالت کے جج جسٹس شفیع محمدی صاحب حلالہ کو حرام اور غیر قانونی قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود اس پر کسی قسم کی کوئی معاشرتی اگاہی مہم حکومت کے پلیٹ فارم سے نہیں چلائی گئی جس سے عام آدمی ان پڑھ، جاہل اور ہوس ذدہ مولویوں کی حلالے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائیں ۔حکومت معاشرہ سازی کے عمل کا نام ہے۔ معاشروں میں کثیر الانواع افراد کی درست سمتوں میں رہنمائی صرف حکومتی وژن ہی سے ممکن ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے 28برس قبل شہر بانو کیس میں ایک ایسے شوہر کو طلاق کے بعد بھی بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کا حکم دیا جو زندگی کے 40 برس اس کے ساتھ گزار چکی تھی اور شوہر نے بڑھاپے میں طلاق دے کر گھر سے بے گھر کر دیا۔ لیکن ہمارے ہا ں آج بھی زندگی کا سارا حسین وقت شوہر کی نظر کرنے کے باوجود شوہر بیوی کو غلطی سے بھی طلاق دے دے تو اس کے لیے واپسی کا سفر حلالے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی اس بیوی کا شوہر کے روپے پیسے پہ کوئی حق ہے جس کے ساتھ وہ اپنی جوانی گزار کے آئی ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے شمیم آراء بنا م ریاست اتر پردیش میں یہ بھی حکم جاری کیا کہ کوئی طلاق اس وقت تک مکمل نہیں ہو گی جب تک مصالحت کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔ علما ء نےتو عورت کوباندی سے زیادہ کا درجہ سے انکار کر دیا ہےافسوس اس بات کا ہے کہ ہماری عدالتیں بھی خوف ذدہ ہیں ۔ اسلام کی تشریح کا جو فریضہ مختلف کیسسز میں انڈین سپریم کورٹ سر انجام دے رہی ہیں پاکستان کی عدلیہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو نصاب تعلیم کو از سر نو ترتیب دینا چاہیے اور وہ تمام امور جن سے آج کے ننھے طالب علم کا مستقبل میں واسطہ پڑنا ہے اس پہ اس کی ذہن سازی کی جائے۔ بچوں کو سیکھایا جائے کہ خاندان کی کیا حیثیت ہے؟ شوہر اور بیوی کے تعلق کی نوعیت کیسی ہے؟ تاکہ مجازی خدا کے تصور کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔یہ بھی سیکھانے کی ضرورت ہے کہ کامیاب شادی شدہ زندگی یہ نہیں جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہ رہے ہوں بلکہ اصل کامیاب زندگی یہ ہے کہ جب میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بغیر رہنا پر امن نہ ہو۔ تربیت میں مولانا وحید احمد خان کی یہ بات شامل کی جائے کہ ہم سیکھیں کہ ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکهٹا ہوتے ہیں تو یہ دو متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے- عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے- یہ دونوں باتیں فطری ہیں- وه لازمی طور پر ہر عورت اور مرد کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں- اس معاملے میں کسی کا بهی کوئی استثنا نہیں۔ اب ان دونوں صفتوں کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا ان کا منفی پہلو- اگر ان صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وه انسانیت کے لئے خیر ثابت ہوں گے اور اگر ان کو منفی انداز میں استعمال کیا جائے تو انسانیت کے لئے شر بن جائیں گے۔انانیت (ego) کا مثبت یہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لئے جمنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وه موم کی مانند ہو جائے گا اور عزم و ہمت کے ساتھ وه کوئی کام نہ کر سکے گا- انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گهمنڈ کا مزاج پیدا ہو جائے۔ آدمی کو چاہئے کہ وه اپنی انانیت کو اس منفی حد تک نہ جانے دے،۔ورنہ وه تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا- اسی طرح عورت پیدائشی طور پر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اس صفت کے بهی مثبت اور منفی پہلو ہیں- اس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیاده ہوتا ہے- جو بلاشبہہ ایک خوبی کی بات ہے- اس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہو جائے- وه معاملات میں ضدی پن دکهانے لگے- یہ دوسرا پہلو اس صفت کا منفی پہلو ہے- اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیدا ہو جائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائده کهو دے گی-عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وه اپنے اس فطری مزاج کو سمجهیں- وه شعوری طور پر اس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے، وه منفی رخ اختیار نہ کرے- اس انضباط میں عورت اور مرد دونوں کے لئے کامیابی کا راز چهپا ہوا ہے- جہیز، نکاح ، طلاق اور وراثت کے اسلامی احکام کی درست تشریح اور ان پر نمایاں عدالتی فیصلوں کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔دنیا بھر میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کو بھی طالب علموں کو اگاہ رکھا جائے۔مسلک کو مذہب پہ حاوی کرنے کی کوشش کی مذمت کی جائے اور ریاست کو ماں کی حیثیت سے تمام مذاہب کے لیے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔میڈیا نے آج کے دور میں شعور اور آگاہی کا ایک انقلاب برپا کر دیا اسے اس ضمن میں آگے آنا چاہے۔ہم نے اپنی نسل کو دار الحرب اور دارلامن میں الجھا رکھا ہے اسلیے کسی نے انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو محض ایک ہندو ملک کی عدالتوں کی اسلام دشمنی سے ہی تعبیر کیا ہو گا۔لیکن آج جب ہمارے چراغ اندھیر ے بانٹ رہے ہیں تو پھر ان اندھیروں کی طرف منہ کرلینے میں کوئی حرج نہیں جو روشنی کی امید بنے ہوئے ہیں۔

Saturday 1 May 2021

>مقدمہ < || پاکستان اسرائیل تعلقات ۔۔۔۔سفارتی محاذ پہ ایک اور چیلنج

0 comments

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت

0 comments
حضرت علی رضی اللہ عنہ تاریخ کی انتہائی دلچسپ شخصیت ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کے بعدسب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ دورِ نبی ﷺ کی سب سے بہادر ترین شخصیت بھی تھے۔ خاندان عبدلمطلب کو اسلام کی دعوت دی تو کم سنی کے باوجود اپنے بلند پایہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم کا دست و بازو بننے کا اعلان کیا۔ہجرت کی رات نبی کریم ﷺ کے بستر پہ سوئے جس پہ کفار حملے کی غرض سے گھات لگائے ہوئے تھے۔ غزوات النبیﷺ میں اسلام کو سب سے زیاہ فائدہ آپ کی تلوار ذوالفقار نے ہی پہنچایا۔ہر جنگ میں نبی کریم ﷺ مبازرت کے لیے آپ کو بھیجتے اور آپ نے ہمیشہ اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا ۔ غزوہ الاحزاب میں عرب کے مشہور سورما عمروبن عبدوود کی پیدا کردہ سخت ترین صورت حال میں جب وہ خندق عبور کرنے کے بعد خیمہ نبی ﷺ کے سامنے نیزہ گاڑ کر مبازرت طلب کرنے لگا۔ اس کی دہشت سے لوگ کانپتے تھے۔ اس نے سپاہ اسلام کا للکار کر جنت کا مذاق بناتے ہوئے کہا کہ ' 'اے جنت کے دعویدارو کہاں ہو؟ کیا کوئی ہے جسے میں جنت کو روانہ کر دوں یا وہ مجھے دوزخ میں بھیج دے'' اور اپنی بات کی تکرار کرتا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ' 'کوئی ہے جو اس کے شر کو ہمارے سروں سے دور کرے؟''۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آمادگی ظاہر کی۔ اس وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو اجازت نہ دی اور دوسری اور پھر تیسری دفعہ پوچھا۔ تینوں دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہی تیار ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اپنا عمامہ اور تلوار عطا کی اور فرمایا کہ '' کل ایمان کل کفر کے مقابلے پر جا رہا ہے' '۔ ایک سخت جنگ جس کے دوران گردو غبار چھا گیا تھا نعرہ تکبیر کی آواز آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ''خدا کی قسم علی نے اسے قتل کر دیا ہے''۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ' روزِ خندق علی کی ضرب تمام جن و انس کی عبادت سے افضل ہے'۔ بدر وحنین ہو یااحد کی جنگ یا پھر کئی روز سے خیبر کا ناقابل تسخیر مرھب آپ نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی کو یقینی بنایا۔ آپ 21 رمضان المبارک سن 40 ہجری کو مسجد کوفہ میں عبدالرحمن ابن ملجم نامی ایک خارجی کے دوران نماز حملے میں زخمی ہونے کے بعد شہید ہو گئے۔ آپ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ یہاں ہم طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں: آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: "میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔ (تیسرے بیٹے) محمد بن حنفیہ سے فرمایا: "میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی؟ میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں (حسن و حسین) کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔ " پھر حسن و حسین سے فرمایا: "میں تم دونوں کو بھی محمد کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارا بھائی اور تمہارے باپ کا بیٹا ہے۔ تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے۔" پھر خاص طور پر حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "میرے بیٹے! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا، دین میں تفقہ حاصل کرنا، ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا۔" جب وفات کا وقت آیا تو پھر یہ (قرآنی آیات پر مشتمل) وصیت فرمائی: "بسم اللہ الرحمن الرحیم! یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں۔ حسن بیٹا! میں تمہیں اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا رب ہے۔ اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ صرف اسلام ہی کی حالت میں جان دینا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک دوسرے باہمی تعلق رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ اپنے رشتے داروں سے اچھا سلوک کرنا، اس سے اللہ تم پر حساب نرم فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنا، ان پر یہ نوبت نہ آنے دینا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مانگیں اور نہ ہی تمہاری موجودگی میں پریشانی میں مبتلا ہوں۔ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اللہ سے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں بھی ڈرنا کیونکہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت ہے ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں جن میں خاص کر نماز، زکوۃ، جہاد، امر بالمعروف کی نصیحت تھی۔ معاشرے کے کمزور طبقات یعنی غرباء و مساکین اور غلاموں کے بارے میں خاص وصیت فرمائی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں فرمایا: تمہارے موجود ہوتے ہوئے کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اپنے نبی کے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ۔۔۔پشت دکھانے، رشتوں کو توڑنے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور نافرمانی اور سرکشی میں کسی کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اللہ تعالی تمہاری ، تمہارے اہل خاندان کی حفاظت کرے جیسے اس نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی تھی۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیتیں ایسی ہیں کہ پڑھنے والے کا دل بھر آتا ہے۔ ان وصیتوں میں جو خط کشیدہ الفاظ ہیں، ان پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی؟ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خاص کر اس بات کی تلقین فرمائی کہ صحابہ کرام کو ساتھ ملایا جائے، ان سے تفرقہ نہ پیدا کیا جائے اور انہی کے ساتھ رہا جائے خواہ اس کے لیے انہیں کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت حسن نے یہی کیا اور قربانی کی ایک ایسی تاریخ رقم کی، جس پر ملت اسلامیہ قیامت تک فخر کرتی رہے گی۔ اپنے قاتل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا وصیت فرمائی، اسے بھی پڑھتے چلیے: بنو عبدالمطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا، اور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں (تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔) سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ حسن! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ مثلہ سے بچو خواہ وہ باؤلے کتے ہی کا کیوں نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم امت کی مشترکہ مقدس ہستی ہیں جن کے شرف اور مقام و مرتبہ پہ کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ آپ کی شہادت کے دن امت آپ کی اپنے بیٹوں کو کی گئی وصیت پہ عمل کرنے کا عہد کرے تو یقینا معاشرہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔

Thursday 29 April 2021

قیام پاکستان کی بنیاد محض مذہبی نہ تھی

0 comments
قیام پاکستان کے بین لاقوامی محرکات کے نام سے چھپانے والا گزشتہ کالم تو صر ف اسی نقطہ کے ارد گرد تھا کہ جس زمانے میں پاکستان کا قیام عمل میں آ رہا تھا اس وقت بین الاقوامی دنیا کی سیاست کی شطرنج میں مہرے کس کس پوزیشن میں تھے ۔اور یہ بھی بات زیر بحث رہی کہ ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے پیچھے بین الاامی مفاد موجود تھا ۔ اسی مفاد کی کی پاسبانی ہم شاید آج تک کر رہے ہیں۔ جتنا ضروری یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون سے بیرونی محرکات تھے جو تقسیم ہند ستان کے عمل میں برق رفتاری پیدا کر رہے تھے۔ اتنا ہی ضروری اس وقت کی ہندوستانی سیاست پہ بھی گہری نظر ڈالنے کی ہے تاکہ ہر سیاسی جماعت کی پوزیشن واضح ہو سکے۔ قیام پاکستان کے بعد جو نظریہ پاکستان تخلیق کیا گیا اس کی حقیقت بھی انہی سالوں کی سیاست کے قالین کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی سب سے بڑی دعویدار آل انڈیا نیشنل کانگریس تھی ۔ ایک وہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی جماعت تھی۔ دوسرا وہ پورے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کا دعوی بھی کرتی تھی ۔ ان کے اس دعویٰ میں تقویت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسےبراہ راست مسلمانوں کی کثیر تعداد کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کئی علاقائی مسلمان جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ڈاکٹر ذاکر خان، سیف الدین کچیلو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی قدآور شخصیات بھی کانگریس کی ہمنوا تھیں اور سب اس بات پہ مصر تھے کہ ہندوستان کے متحدہ قومیت کے تصور کو تسلیم کیا جائے اور تقسیم ِ ہند کو کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا۔ہندوستان کی واحد نمائندہ ہونے کے دعویٰ میں اس وقت بھی تقویت پیدا ہو جاتی ہے جب 1936 کے انتخابات پہ نظر ڈالی جائے جب وہ پورے ہندوستان کی واحد کامیاب جماعت کے طور پہ ابھری اور آٹھ صوبوں میں بلاشرکت غیر حکومت بنائی۔
جمعیت علماء ہند کے پاس بھی مسلماقونوں کی کثیر تعداد کی رہبری کا دعوی تھا۔چونکہ دارالعلوم دیو بند مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے ساتھ سے ہی احیاء دین کے لیے کوشاں تھی اس لیے ایک لمبے عرصے تک ہندوستان میں دین کے لیے جدوجہد کرنے کے باعث عوام میں مقبولیت کا ہونا ایک فطری امر تھا۔ جمعیت علما ء ہند دارالعلوم دیوبند کا سیاسی بندوبست تھا۔اس کی بنیاد 1919میں مولانا عبدالمحاثم ساجد، قاضی حسین احمد ، احمد سعید دہلوی ، عبدالباری فرہنگی محلی نے رکھی تھی ۔یہ کانگریس کی ہمنوا تھی۔مولانا حسین احمد مدنی صاحب، مفتی کفایت اللہ صاحب سمیت کئی جید علما نے بانگ دہل قیام پاکستان کےموقف کی مخالفت کی اور شرعی اعتبار سے اسے ممنوع قرار دیا۔مولانا حسین احمد مدنی صاحب کے مطابق اقوام اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں۔وہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے موجد اور مسلم لیگ میں شمولیت حرام ہے کے فتوی کے خالق بھی تھے۔
جماعت الاحرار جو تحریک خلافت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی تھی ۔ علامہ عطا ء اللہ شاہ بخاری، علامہ مظہر حسین اظہر مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی جیسےجوشیلے مقرر اور علما اس کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔یہ قیام پاکستان کے مخالف تو تھے ہی لیکن ساتھ ہی اپنے مخالفین خصوصا مسلم لیگی قیادت کو اخلاق سے گھٹیا القابات سے پکارنا ان کا شیوا تھا۔ جیسے قائد اعظم کو کافر اعظم، پاکستان کو پلیدستان سمیت کئی دیگر القابات جماعت الاحرار کے پلیٹ فارم سے ہی تخلیق کیے گئے۔سیاسی اعتبار سے یہ بھی قیام پاکستان کے مخالف تھے اور پورے ہندوستان کو آزاد کر کے خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتے تھے۔تقسیم ہند کے بعد جماعت الاحرار کی قیادت پاکستان تشریف لے آئی مگر ان کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی ۔ 1953 میں پنجاب میں ہونے والے فسادات کے پیچھے جماعت الاحرار ہی کا ہاتھ تھا۔
ایک اور بڑی مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی تھی جس کے بانی اور قائد مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ تھے۔ موصوف بھی قیام پاکستان کے خلاف تھے جس کا اندازہ ان کے اس مختصر قول زریں سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمد علی جناح جنت الحمقا( احمقوں کی جنت) کا بانی اور اور اجل ِ فاجر ہے۔ پاکستان جنت الحمقا اور کافروں کی حکومت ہو گی۔اگرچہ مولانا مودودی صاحب کی قیام پاکستان مخالف سیاسی سوچ پہ کئی صفحات لکھے جا سکتے ہیں لیکن جامعیت کے اعتبار سے ان کا یہ مختصر جملہ ہی کافی وشافی ہے ۔اور مولانا کا یہ موقف قیام پاکستان کے بعد بھی ضروری ترامیم کے ساتھ برقرار رہا۔
اہل تشیع حضرات کی نمائندہ مومن کانفرنس شمال مشرقی ہندوستان کی ایک زبردست تنظیم تھی۔ یہ بھی پسماندہ مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار تھی ۔سیاسی اعتبار سے یہ جماعت بھی آل انڈیا نیشنل کانفرنس کی ہم خیال تھی۔ انہوں نے 1943 میں ایک قرار داد پاس کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اور قومی حمیت کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ اپنی مادر وطن کو تقسیم کر کے اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دے۔اس کے علاوہ آل انڈیا شعیہ کانفرنس، آل انڈیا مسلم مجلس، جمعیت اہل حدیث، انجمن وطن (بلوچستان)،ساوتھ انڈیا سیپریشن کانفرنس جیسی دیگر مسلمان تنظیمیں بھی تقسیم ہندوستان کی شدت سے مخالف تھیں ۔تقسیم ہندوستان کی مخالف تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے جذبات ابھارنے کے لیے اشعار پڑھے جاتے تھے ان کا اندازہ شمیم کرہانی کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم کو بتلاؤ تو کیا مطلب ہے پاکستان کا جس جگہ اس وقت مسلمان ہیں نجس ہے کیا وہ جگہ نیش تہمت سے ترے ، چشتی کا سینہ چاک ہے جلد بتلا کیا زمین اجمیر کی ناپاک ہے تمام مذہبی جماعتیں بلاتفریق قیام پاکستان کی مخالفت تھیں ۔ یہ ضرور ہے کچھ علما اکرام جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی وغیرہ اپنی ذاتی حیثیت میں مسلم لیگ کے حامی تھے لیکن ان کا جماعتی نظم و ضبط قیام پاکستان کے مخالف ہی رہا۔ مذہبی جماعتوں کے علاوہ کچھ ایسی علاقائی جماعتیں بھی تھیں جو مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھیں ۔ جیسے پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت یونینسٹ پارٹی تھی جس نے ایک لمبے عرصے تک پنجاب پہ حکومت کی تھی۔ سر فضل حسین اور سر سکندر حیات جیسی قد آور شخصیات اس پلیٹ فارم سے پنجاب کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ یہ انگریزوں کی سرپرستی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو پنجاب کے باسیوں کے لیے مراعات لینا آسان ہوا۔ یہ جماعت بھی کانگریس کی ہمنوا تھی اور متحدہ ہندوستان اس کا سیاسی منشور تھا۔ 1946 کے انتخابات سے قبل جناح –سکندر معاہدے کی بدولت مسلم لیگ کے لیے پنجاب میں حالات کچھ سازگار ہوئے۔ اس معاہدے کا بعد میں کیا بنا یہ الگ سے ایک دلچسپ داستان ہے۔ لاہور ہی کو مرکز بنا کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ایک اور تنظیم خاکسار تحریک تھی۔ حمیدالدین مشرقی اس کے روح رواں تھے خاکی شرٹ اور ہاتھ میں بیلچہ ان کی پہچان تھا۔رفیق نامی ایک خاکسار کارکن نے قائد اعظم پہ قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا۔ تحریک پاکستان میں متحدہ ہندوستان ان کے سیاسی نظریات کا مرکز تھا۔اسی طرح خان عبدالغفار خان عرف باچہ خان جنکو سیاسی نظریات میں پرامن اور عدم تشدد جیسے نظریات رکھنے پہ لوگ سرحدی گاندھی کے نام سے یاد کرتے تھے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا ٹرایبیوٹ تھا۔ باچہ خان بھی متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے۔باچہ خان ہماری قومی تاریخ کا ایک بدنصیب کردار ہے جس کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد ریاستی اداروں کی طرف سے انتہائی نامناسب سلوک روا رکھا گیا جس کی تفصیلات کے لیے الگ سے کالم لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جس تناظر میں بات آج کی جا رہی وہ قیام پاکستان کے مخالف کیمپ میں ہی نظر آتے ہیں ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906 میں انگریزوں کی ایما پہ ہی عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد عوام میں مقبول ہوتی آل انڈیا نیشنل کانگریس پہ دباو ڈالنا تھا۔ مسلم لیگ عرصہ دراز تک محض ڈرائنگ روم کی سیاسی جماعت تھی ۔ جو اپنے سالانہ جلسے کے علاوہ عوامی میٹنگز کا اہتمام نہیں کرتی تھی۔ بڑے بڑے نواب اور رئیسان ِ وقت اس کے نمائندہ ہو ا کرتے تھےجو کانگریس کو چیک اینڈ بیلنس کے دوران انگریزوں سے مراعات حاصل کر لیا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کے قد کاٹھ کا اندازہ 1936 کے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے جہاں اسے پورے ہندوستان سے کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس کے سربراہ بنے تو اس کی تنظیم نو کی گئی جس سے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن سمیت دیگر ذیلی تنظیمیں بنی، مسلم لیگ کے نمائندہ اخبارات کا اجراء کیا گیا تو مسلم لیگ قومی سطح پہ متحرک ہوئی ۔ قائد اعظم کی ساری زندگی ہندوستانی عوام کی آئینی حقوق کے حصول میں جدوجہد کے دوران گزری۔ کانگریس میں دادا بھائی نوروجی اور گھوکھلے جیسے اعتدال پسند رہنماوں کی جگہ موتی لال نہرو، گاندھی اور لالہ لاجپت رائے جیسے تنگ ذہنیت کے حامل رہنما وں نے کانگریس کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو جناح صاحب نے کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلمانوں کے آئینی حقوق پہ توجہ مرکوز کر لی۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس طرح مسلم لیگ پورے منظر نامے پہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے مطالبے میں علیحدہ وطن کا حصول شامل تھا ۔ 1945 کے انتخابات اس سلسلے میں تب ایک ریفرنڈم کی شکل اختیار کرگئے جب قائد اعظم نے اپنے اخباری بیان میں کہہ دیا کہ اگر مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو جائے گی۔ ایسی نازک صورت حال میں بھی مذکورہ بالا تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا وزن آل انڈیا نیشنل کانگریس کے پلڑے میں ہی ڈالا۔اس لیے قیام پاکستان کے مقاصد کا تعین بھی مسلم لیگ ہی کا صوابدید ہونا چاہیے ناکہ اس کے مخالف عناصر کو یہ موقعہ دیا جائے کہ وہ اس کی منزل کے تعین میں حتمی کردار ادا کریں۔ اب آخر پہ اس نعرے کی بابت بات کرتا چلوں جس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الااللہ ۔یہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے شاعر اصغر سودائی کی نظم کا حصہ تھا جیسے 1946 کے انتخابات کے دوران لوکل سطح پہ لوگوں کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے پڑھا گیا۔ وہ شعر و شاعری کا دور تھا لوگ اپنی تقریروں میں طویل نظمیں پڑھا کرتے تھے اور مقبول شعراء کا سیاسی جلسوں میں خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔اسی طرح اصغر سودائی بھی جب سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کا پیغام لیکر نچلی سطح تک عوام میں گئے تو وہ اپنا کلام پڑھ کر عوام کا لہو گرمایا کرتے تھے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا مسلم لیگ کی کسی مرکزی یا صوبائی تنظیم نے اس نعرے کو اپنے پلیٹ فارم سے لگایا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔یہ نعرہ صرف ایک مرتبہ مسلم مشائخ کانفرنس کے موچی دروازے کے باہر منعقد ہونے والے جلسے میں لگایا گیا جس کا اہتمام پیر جماعت علی شاہ صاحب نے مسلم لیگ کی الیکشن کیمپین کی حمایت میں کیا تھا۔ کیونکہ علما کے برعکس درگاہوں کے متولیوں اور صوفیاکے پیروکاروں کا جھکاو مسلم لیگ کی جانب تھا۔ سر یامین اور نواب صاحب آف محمود آباد جیسے قائد اعظم کے انتہائی قریبی اور بااعتماد لوگ اپنی سوانح عمر ی میں یہ بات لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری سالانہ اجلاس کراچی کے دینا ہال میں ہوا جس کی صدارت قائد اعظم نے کی۔ بہار سے آئے ہوئے لوگوں نے قائد اعظم سے سوال کیا کہ کیا مستقبل کے پاکستان کی نوعیت ایسی ہو گی جیسا ہمیں نعرہ سننے کو مل رہا ہے؟ ان کا اشارہ اسی نعرے کی جانب تھا ۔ قائد اعظم نے بہار کے وفد سے کہا آپ بیٹھ جائیے ۔ بیٹھ جائیے ۔بیٹھ جائیے۔ پھر آگے فرمایا کہ ہاں یہ بات میرے علم میں بھی آئی ہے کہ نچلی سطح پہ چند ایک ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ نعرہ لگایا گیا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل کا پاکستان ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
اس نعرے کی حقیقت کا پتہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی شعور کے اعتبار سے بنگال سب سے باشعور خطہ تھا۔ مسلم لیگ کی بنیاد بنگال میں رکھے جانے کے علاوہ پاکستان کی قرار داد پیش کرنے والے بھی بنگالی ہی تھے۔قیام پاکستان کے بعد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا جس میں 54فیصد آبادی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نعرہ پاکستان کی تحریک کا روح رواں تھا تو بنگال اس سے بے خبر کیوں تھا؟ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں کئی تحریکیں چلیں لیکن کسی ایک تحریک میں بھی یہ بات نہیں دہرائی گئی کہ پاکستان اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا ہے لہذا اس میں اسلام نافذ کیا جائے۔بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم اور حسین شہید سہروردی جیسے تحریک پاکستان کے فرنٹ لائن لیڈر بعد ازاں پاکستان کے وزرائے اعظم بھی بنے لیکن کبھی اس بات کا اعادہ نہیں کیا۔ یہ صورت حال اور بھی بہت ہی دلچسپ ہو جاتی ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پاکستان اسلام کے نام پہ قائم کیا گیا تھاتو اس وقت کی مذہبی قیادت کے مقام کا تعین کرنا آج کے پیروکاروں کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا کیوں جن لوگوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی وہ تب کے مذہبی راہنماوں کے مطابق گمراہ، بےدین، حتیٰ کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے تھے۔ اور بانیان پاکستان کے مطابق پاکستان کی بنیادیں سیکولر تھیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا عقدہ ترک کر دیں گے۔بلکہ ان کی رائے تھی کہ سیاسی اعتبار سے سب ایک قوم کے شہری ہوں گے۔اور مذہب ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہو گا۔
جنا ح صاحب نے اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت 13 جولائی 1947 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی۔جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گی اور غیر مسلم اقلیتوں کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔انہوں نے کہا پاکستان ڈومینین میں اقلیتوں کے مذہب ، عقیدے ، جان ومال اور ثقافت کا تحفظ ہو گا۔وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔اور ان کے ساتھ کسی بھی طرز کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔اقلیتوں کو ریاست کا حقیقی وفادار ہونا پڑے گا۔اسی کاپریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گی یا تھیو کریٹک تو ان کا جواب تھا یہ سوال احمقانہ ہے مجھے معلوم نہیں کہ تھیوکریٹک ریاست کا مطلب کیا ہے؟ اس پہ صحافی نے کہا تھیوکریٹک ریاست کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مسلمان تو پورے شہری ہوں گےاور غیر مسلم پورے شہری نہیں ہوں گے۔تو قائد اعظم نے کہا پھر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ رائیگاں چلا گیا جو اب تک میں نے کیا ہے۔خدا کے لیے ایسے بیہودہ خیالات اپنے ذہن سے نکال دیں۔ چنانچہ جناح کے پاکستانی نیشلزم میں مسلم کو غیر مسلم پہ کوئی برتری حاصل نہیں تھی۔ان کے نزدیک پاکستان کی جیوگرافیائی حدود میں آباد ہر شخص کو بلا تفریق مذہب اور عقیدہ ایک شہری کے حقوق اور ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ان کا نظریہ پاکستان جیوگرافیائی سرحدوں پہ مبنی تھا۔بعد ازاں عوام دشمن ملاوں اور فوجی آمروں نے اپنے غصب شدہ اقتدار کا نظریاتی جواز مہیا کرنے کے لیے نظریاتی سرحدوں کا جو نعرہ گھڑا اس کا قائد اعظم محمدعلی جنا ح نے پاکستانی نیشنلازم سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ ابو بکر صدیق,لاہور

مقدمہ ||<علامہ اقبال ۔۔۔اور مصور پاکستان کی تہمت

0 comments
قیام پاکستان سے قبل جدوجہد پاکستان کی جیوگرافیائی سرحدوں کے حصول کے لیے تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ جس نقطے کے گرد گھومتی ہے وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہے۔ہم نے اسی نقطے کا استعمال کرتے ہوئے نظریاتی مملکت، اسلامی ریاست، اسلامی نظام ، نفاذ شریعت ، حکومت الہیہ کا قیام، جیسی اصطلاحات کو قومی یاداشت کا لازمی حصہ بنایا گیا۔اس امر کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اس کا ذکر سرسری طور پہ گزشتہ کالم قیام پاکستان کے بیرونی محرکات میں کیا گیا تھا لیکن تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد بنگال کے عوام نے اپنے معاشی وسائل کو اپنے اوپر صرف کیے جانے کا مطالبہ کیا ، ملازمتوں میں اپنے جائز حصے کی بات کی، یا آبادی کے تناسب سے وسائل کی تقسیم پہ زور دینا چاہا تو اس "پست قد حقیر مخلوق" کو ان کی اوقات یاد کروانے کی جائزیت اسی نظریہ نے دی۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ نظریاتی سرحدوں کو تصور ہی ان سر کش عناصر کو نکیل ڈالنے کی نوید بنتا ہے ۔اسی کی چھتر چھاوں تلے ہم نے ان تمام معاہدات کو پاوں تلے روند ڈالا جو ریاست پاکستان نے ان ریاستوں سے کیے تھے جنھوں نے تقسیم ہندوستان پہ بھارت کی بجائے پاکستان پہ اعتماد کیا تھا۔ اس ریاستی بندوبست میں سب سے اہم علامہ اقبال کا تصور پاکستان ہے۔ ریاستی بیانے کے مطابق یہ ہی وہ نقطہ ماسکہ ہے جس کے گرد سارا تانا بانا بنا گیا۔اس ضمن میں چند ایک سوالات ہیں جن کے جوابات ریاستی نصاب فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ سارا زور ان جوابات تک پہنچنے والے راستوں کو مسدود کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ کیا علامہ اقبال نے بیان کردہ تصور پاکستان پیش کیا تھا؟کیا اقبال خود مختار ریاست کے قیام کے حامی تھے؟ کیا اقبال وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں دو آزاد اور خودمختار ریاستوں کا حل تجویز کیا تھا؟کیا تحریک پاکستان میں کبھی اقبال کے مجوزہ تصور پاکستان کی بازگشت بعد کے سالوں میں بھی سنائی دی؟خود مختاری کے اصول پہ اقبال کا اپنا کیا موقف تھا؟ اگر ہم ان سوالات کے جوابات کے لیے تاریخ کے دروازے پہ دستک دیں تو حیرت انگیز اور چشم کشا حقائق ہمارے منتظر ہوں گے۔ نصابی تاریخ قیام پاکستان کو جب ایک نظریاتی ریاست سے تعبیر کرتی ہے تو وہ اس کی بنیاد 1930 کے خطبہ آلہ باد کو بنیاد کے طور پہ پیش کرتے ہیں ۔علمی خیانت کی اس سے بڑی کوئی مثال اور ہو ہی نہیں سکتی کہ کسی بھی لیول پہ یہ خطبہ سارے کا سارا پڑھایا نہیں جا تا بلکہ اس کا ایک درمیانی ٹکڑا سیاق و سباق سے ہٹ کر لکھا جاتا ہے ۔ ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ، خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘‘ علامہ اقبال کے اس بیان میں لفظ خود مختار (Autonomous)اصل خطبے میں موجود نہیں ہے اسے نظریہ ساز اداروں نے بعد میں منسلک کیا ہے ۔علامہ اقبال کا سارا خطبہ سائمن کمیشن کی ہندوستان میں آمد کے بعد کے سیاسی حالات کے پس منظر میں ہے ۔ جس میں آل پارٹیز کانفرنس، نہرو رپورٹ ، آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور جناح کے 14 نکات شامل ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں ہندوستان کے لیے ایک فیڈریشن کا نظام تجویز کیا جو کہ پچھلے چند ایک سالوں میں ہندوستان میں جنم لینے والا ایک مقبول تصور تھا۔سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور بلوچستان صوبہ سرحد اور پنجاب کو آپس میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی۔کیااقبال اس تصور کے بانی تھے ؟ اس کا جواب بھی علامہ اقبال اپنے اسی خطبے میں خود ارشاد فرماتے کہ یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی جسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا تھا کہ "اگر اس قسم کی ریاست قائم ہوئی تو یہ بے ہنگم طور پر وسیع و عریض ریاست ہو گی جس کا انتظام کرنا دشوار ہو گا" اس کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ اگر انبالہ ڈویژن جو ہندو اکثریت کا تھا، نکال دیا جائے تو یہ مجوزہ ون یونٹ کا صوبہ قابل عمل ہو جائے گا۔ رینان کے ’’قوم‘‘ کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا ’’اگر اکبر کا دین الٰہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہو جاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہو جاتی لیکن تجربہ بتلاتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں کہ وہ اپنی حیثیت کو ترک کر کے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کر لیں۔ قومیت ہند کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون اور اشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ میری رائے میں ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر صرف اس بات پر مبنی ہے کہ ہم قومیت ہند کا اتحاد اسی اصول پر قائم کریں۔‘‘ آگے چل کر کہا: ’’میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی جانب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار حل کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اپنے ہندوستانی مادر وطن کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ آپ نے ون یونٹ کا صوبہ تجویز کرنے کے بعد آگے چل کر کہا کہ ’’اس سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری مضبوط ہو گا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقع دیا جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما پا سکیں تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے وفاق ہندوستان کے دفاع پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور کہا ’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی رضامند ہو جائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانبدار فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھیں۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسر ہندو تھے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہو گا۔‘‘ علامہ نے اصل میں مسلم لیگ کے سرکاری موقف کے بارے میں کہ برصغیر میں ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کیا جائے یہ خطبہ بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اس میں صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا جو مطالبہ کیا وہ بھی مسلم لیگ پہلے سے کر رہی تھی۔ اس خطبے میں آپ نے ایک جگہ سندھ اور بلوچستان کو باہم ضم کر کے ایک صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مجوزہ وحدانی طرز کی مضبوط مرکز کی حکومت کی مخالفت کی اور کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ میں تمام اختیارات ما البقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں 33 فیصد نشستیں نہ ملیں۔‘‘ آپ نے مسلم اکثریت پر مبنی خودمختار ریاستوں یعنی صوبوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ’’ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان علاقوں میں ایک طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔‘‘ آپ نے اس کے لیے ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کے حوالے سے بتایا کہ’’ باوجودیکہ اسلام میں سود لینا حرام ہے ، مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر پابندی نہیں لگائی تھی۔‘‘اقبال کے خطبے کو تفصیلی جان لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ اقبال نے کسی خود مختار (Sovereign) ریاست کا تصور نہیں پیش کیا تھا۔ اقبال کے خطبے کو پڑھ لینے سے واضح تو ہوا لیکن پھر بھی ابہام ذہن میں ہو سکتا کہ ہم نے اقبال کے خطبے کی تشریح اپنے مقصد کے مطابق کر لی ہو۔ اقبال نے اگر ایسا نہیں کہا تھا تو وہ خطبہ آلہ آباد کے سات برس بعد تک زندہ رہے تو کیا انہوں نے خود اس کی تردید کی؟تو اس کا جواب بھی اثبات میں ہے۔ 1934 میں اقبال کی کتاب رموز خودی کا انگریزی میں ترجمہ چھپا تو اس کی ایک کاپی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ای،جے تھامپسن کو بھجوائی جنہوں نے اس پہ اپنا ریویولکھا اور 1933میں چوہدری رحمت علی خان کے پمفلٹ "Now or Never" میں ہندوستان کے سیاسی حل کو علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد کا تسلسل قرار دیا۔علامہ اقبال نے وہ ریویو پڑھا تو پروفیسر ای۔ جے تھامپسن کو خط لکھا ۔ یہ خطوط علی گڑھ یونیورسٹی نے شائع بھی کیے ہیں۔ آپ نے لکھا" ۔۔۔آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ ‘‘ کیا قائد اعظم محمد علی جناح جو کہ مسلم لیگ کے کاروان کے واحد میرکارواں تھے بھی اقبال کے تصور پاکستان سے لاعلم تھے؟ انہوں نے کبھی اپنے کسی خطبے میں یا مسلم لیگ نے اپنی کسی سرکاری قرار داد میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ 1938ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ دسمبر 1938ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں اس سال کے دوران وفات پانے والی تین معتبر شخصیات مولانا شوکت علی، کمال اتاترک اور علامہ اقبال کے بارے میں قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ کے اختتام پر تعزیتی الفاظ کہے۔ آپ نے علامہ کے بارے میں فرمایا “His death too is an irreparable loss to Muslim India. He was personal friend of mine and a singer of the finest poetry in the world. He will live as long as Islam will live. His able poetry interprets the true aspiration of the Muslims of India. It will remain an inspiration for us and for generations after us.” ترجمہ : ’’ اُن کی وفات مسلم ہند کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔وہ میرے ذاتی دوست تھے۔اور دنیا کی عمدہ ترین شاعری کے مغنی تھے۔وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔آپ کی پر مغز شاعری مسلمانان ہند کی امنگوں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔یہ شاعری ہمارے لئے اور ہمارے بعد کی نسلوں کے لئے ولولہ مہیا کرتی رہے گی۔‘‘ بات قابل غور ہے کہ قائد اعظم کے ہاں اقبال کی اہمیت کے کون سے گوشے قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے قبال کو اسلام سے وابستگی ، عالمگیر شاعری اور ذاتی دوستی کی بنا پر گراں قدر خراج تحسین پیش کیا ۔اسی اجلاس میں مسلم لیگ نے جوتعزیتی قرار داد پاس کی۔ اس میں بھی آپ کو اسلام کے سنجیدہ فلسفی “a sage philosopher of Islam”اور عظیم قومی شاعر “great national poet”کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اور اگر اقبال نے کوئی منفرد تصورپیش کیا ہوتا تو مسلم لیگ اپنے سابقہ صدر کی خدمات کو قومی سطح پہ لازمی سراہتی۔ تحریک پاکستان میں 23 مارچ 1940 کی قرار داد لاہور ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں سے مسلمانان ہند نے اپنی نئی اور واضح منزل کا نہ صرف تعین کیا بلکہ اس کے حصول کے لائحہ عمل بھی تشکیل دیا۔علامہ اقبال کی وفات کے دو سال بعد ان کی قبر کے سرہانے مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اس بات کا عہد کر رہے تھے کہ اب خود مختار ریاست سے کم ہرگز کچھ قبول نہ کیا جائے گا۔ لیکن اس جلسے میں قائد اعظم سمیت کسی بھی مسلم رہنما نے علامہ اقبال کا ذکر تک نہیں کیا۔کیا مسلم لیگ کی لیڈر شپ کی یاداشت اس قدر کمزور تھی کہ دو برس قبل دنیا سے رخصت ہونے والے عظیم رہنما جس نے دس سال قبل یہی بات کہی ہو ان کی خدمات کو ان کی قبر کے سرہانے فراموش کر دیا۔ صورتحا ل مذید دلچسپ تب ہو گئی جب قائد اعظم نے اپنی طویل افتتاحی تقریر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کی حمایت میں ماضی کا جو حوالہ دیا وہ تھا تو پنجاب سے لیکن وہ اقبال نہیں تھے بلکہ پنجاب کے مہاسبھائی لیڈر لالہ لاجپت رائے کا تھا جنھوں نے 1924ء میں اخبار ٹریبیون میں اپنے ایک مضمون میں برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی سکیم پیش کی تھی۔ غالباً یہ برصغیر میں پہلی بار تھا کہ ایسی کوئی سکیم پیش کی گئی تھی۔ اس کی سکیم یہ تھی کہ ’’مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی۔ (1) پٹھانوں کا صوبہ یا شمال مغربی سرحد۔ (2) مغربی پنجاب (3) سندھ اور (4) مشرقی بنگال۔ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیرمسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘‘ قائد اعظم نےخطبہ صدارت کے دوران انہی دنوں چھپی اندر پرکاش کی کتاب نکالی جس میں لالہ لاجپت رائے کا ایک خط شامل تھا جو اس نے 16 جون 1925ء کو کانگرس کے صدر سی۔آر۔داس کو لکھا تھا۔ قائد اعظم نے یہ پورا خط پڑھ کر سنایا جس میں لاجپت رائے نے جو لکھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہمارے لیے کوئی راہ نجات نکالنی چا یے۔‘‘ مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی تو اس کی تائید میں پنجاب سے چودھری خلیق الزمان کے علاوہ مولانا ظفر علی خان نے بھی تقریر کی۔ ان کے علاوہ جن اصحاب نے تقریر کی ان میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کے سردار اورنگ زیب، صوبہ سند ھ کے سر عبداللہ ہارون، صوبہ بہار کے نواب محمد اسماعیل، صوبہ بلوچستان کے محمد عیسیٰ خان، مدرس کے عبدالحمید خاں، بمبئی سے اسماعیل چندریگر، سی ۔پی کے عبد الرؤف شاہ اور ڈاکٹر محمد عالم شامل تھے۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ ایسی ہی سکیم غدر پارٹی کے بھائی پرمانند نے 1914-15 میں بھی پیش کی تھی۔ لاہور کے رہنے والے مولانا ظفرعلی خان جو کہ ایک باخبر صحافی بھی تھے سمیت کسی نے بھی حوالہ نہ دیا کہ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصور علامہ اقبال نے 10 سال پہلے پیش کیا تھا۔ 1940 کی قرار داد کا اصل نام قراد داد لاہور ہی تھا جیسے 1942 میں لفظ پاکستان کے اضافے کے ساتھ قرار داد پاکستان قرار دیا گیا پھر برطانوی ہندوستان میں ہونے والے آخری انتخابات میں اسے انٹخابی منشور کا حصہ بنا لیا گیا لیکن اگر نہیں ہو سکا تو وہ تصور پاکستان کو اقبال سے نہیں جوڑا جا سکا۔مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا کہ کسی نے پاکستان کو اقبال کے خطبہ آلہ آباد سے جوڑا ہو۔ حالانکہ 1943ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی میں انور قریشی نے جلسہ کے شروع میں ترانہ ’’چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا‘‘ پڑھ کر سنایا اور اسی اجلاس میں جی ایم سید نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کے اشعار کا استعمال کیا۔ اور پھر قائد اعظم نے صدارتی تقریر کی۔ مگر علامہ کا تصور پاکستان کے خالق کے طور پر کسی نے ذکر نہ کیا۔قیام پاکستان کے بعد ایک مرتبہ اقبال کا یوم پیدائش 9 نومبر 1947 کو اور ایک مرتبہ یوم وفات 21 اپریل 1948 کو آیا ۔ ان دونوں موقعوں پہ قائد اعظم حیات تھے۔ نہ تو قائد اعظم نے ان موقعوں پہ کوئی سرکاری بیان جاری کیا اور نہ ہی حکومت نے ان ایام کو سرکاری طور پہ منایا۔ اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تصور ہمارے ہاں اتنے زور شور سے رائج ہے تو پھر اس نے کب اور کیسے جنم لیا۔اس کے پیچھے کون سے محرکات تھے؟ ا سکا جواب قیام پاکستان کے بعد آبادی کی نقل و حرکت سے کمپوزیشن میں آنیوالی تبدیلی میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ تحریک پاکستان میں پنجاب کی شمولیت بہت بعد میں ہوئی۔ سر سکندر حیات نے جناح سے معاہدہ کیا تو 1945-46کے انتخابات میں مسلم لیگ پنجاب سے کامیاب ہوئی۔ جبکہ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کا کردار بہت فعال رہا تھا۔ صوبہ سندھ بھی بمبئی سے علیحدگی کے بعد مسلم اکثریتی صوبہ بنا تو تحریک پاکستان کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ 1938ء میں سندھ مسلم لیگ پراونشل پارٹی نے جی۔ایم۔سید اور مولانا عبد المجید سندھی کی قیادت میں یہ قرارداد پہلی بار منظور کی تھی کا مسلمانوں کا الگ وطن ہونا چاہئے۔ لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا کیونکہ جی ایم سید کے قاید اعظم کے ساتھ 46 کے انتخابات کیلئے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف ہو ا اور سید ہمیشہ کے لئے مسلم لیگ کا مخالف ہو گیا یہاں تک کہ بعد میں قیام پاکستان کا بھی مخالف ہو گیا۔ تاہم تاریخی حقیقت کے طور پر سندھ پراونشل مسلم لیگ کی قرار داد جو 1940 سے پہلے اور لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی نوعیت کی پہلی قرارداد تھی۔ پھر آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مہاجروں کی صورت میں نئی مملکت کا حصہ بنا تھاجن میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ، اسماعیل چندریگر، کئی وزرا بھی شامل تھے ان کا زمین کے ساتھ کوئی جذباتی رشتہ نہیں تھا ۔اس لیے پنجابی اور مہاجر شاونسٹوں دونوں کی یہ سیای ضرورت تھی۔ وہ جغرافیائی سرحدوں کے بجائے نظریاتی سرحدوں کے نام پر یہاں اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتے تھے۔پنجابی بنگالیوں کے مقابلے میں اپنی عددی کمی کو کسی بھی سیکولر ریاست کے ڈھانچے میں جو قائد اعظم کے دستور سازی کے تصور پر مبنی ہوتی ایک غالب قوت میں نہیں بدل سکتے تھے۔ چنانچہ نظریہ پاکستان کی ان کو بھی بڑی شدید ضرورت تھی جس کے لئے پنجابی علامہ اقبال سب سے موزوں شخصیت ہو سکتے تھے۔

ہمارے اسلام کے پیچھے چھپی ہماری ابو لہبیت

0 comments
ابولہب نبی کریم ﷺ کا چچا تھا۔جس کا اصل نام عبدالعزیٰ بن عبدلمطلب تھا۔ ابو لہب یعنی آگ کا باپ کی کنیت سے شہرت پائی۔ اس شخص کی مذمت میں قرآن پاک کی پوری سورۃ نازل کی گئی۔جس میں اس کے درد ناک انجام کی پیش گوئی بھی کی گئی۔ ابو لہب نبی کریم ﷺ کا حقیقی چچا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺکی ولادت سے قبل اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ کے سبھی چچا آپ ﷺ کی ولادت پہ بہت زیادہ خوش تھے کہ ان کے مرحوم بھائی کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ ابو لہب کی خوشی تاریخ کی کتابوں میں اسطرح محفوظ ہوئی کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ نبی کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں چھوڑ رکھی تھی تاکہ اپنے بھائی کے ہاں آنے والی خوشی سے بروقت خبر پا سکے۔ نبی کریم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو وہ لونڈی اپنے مالک کو اطلاع دینے لیے بھاگ کر گئی ۔ ابولہب نے اپنے ہاں بھتیجے کی آمد کی خبر سنی تو خوشی میں اُسی وقت اپنی اس لونڈی کو آزاد کر دیا۔نبی کریم ﷺ نے ولادت کے بعد اُسی خاتون کا دودھ بھی پیا۔یہ ابولہب کی نبی کریم ﷺ کی ذاتِ کریمہ سے محبت کا اظہار تھا۔ سیرت النبیﷺ کی کتب میں بعد کے واقعات ابولہب کے حوالے سے زیادہ میسر نہیں ہیں لیکن ایک اوربات ایسی ضرور ملتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابولہب کی نبی کریم ﷺ کی ذاتِ کریمہ سے محبت میں ایک تسلسل تھا کیونکہ اسلام کی دعوت سے قبل نبی کریم ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے کر رکھے تھے۔جو کہ یقینا اچھے اور خوشگوار تعلقات کی نشانی ہے۔ اس رشتہ کی نوعیت اس وقت بلکل تبدیل ہو گئی جب نبی کریم ﷺ نے نزول وحی کے بعد اپنے خاندان کے لوگوں کو اپنے ہاں دعوت پہ بلایا اور انہیں اللہ کے پیغام کی طرف بلایا۔یہ پیغام اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم ﷺ کی رسالت پہ ایمان لانے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی مساوات سے بھی لبریز تھا۔ جس کو قبول کرنے لینے کا مطلب جہاں ایک طرف اپنی حیثیت اور رتبے میں نہ صرف کمی لانا بلکہ دوسروں کو اپنے برابر کا سمجھنا بھی شامل تھا۔کیونکہ اسلام عظمت کے معیار کو تبدیل کر کے مال و زر کی جگہ تقوی ٰ کو وہ کسوٹی قرار دیا جس پہ خالق اپنی مخلوق کو پرکھے گا۔ وہیں پہ دوسری جانب معاشی استحصالی نظام سے ہاتھ کھینچ لینا بھی شامل تھا۔ ان کے معاشی نظام کی بنیاد سود پہ قائم تھی جسے اسلام زمین بوس کرنے جا رہا تھا۔ اس لیے ابو لہب کو اپنی سماجی حیثیت میں کمی اور اپنے معاشی مفادات کو ٹھیس پہنچتی نظر آئی تو اس نے اس مجلس کا بائیکاٹ کر دیا ۔ بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت کرنے والا ابو لہب اپنے سماجی اور معاشی مفادات سے ٹکراو کی صورت میں اسی بھتیجے کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔اس نے اپنی بیوی ام جمیل کے ہمراہ نبی کریم ﷺ کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اپنے بیٹوں سے نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دلوا کر آپ ﷺ کو تکلیف دی۔ قرآن میں اس کی مذمت میں پوری سورۃ نازل ہوئی۔ یعنی اسے ذات النبی ﷺ سے محبت تھی لیکن پیغام النبی ﷺ کسی صورت قابل قبول نہیں تھا۔ اس سارے تناظر میں ایک لمحے کے لیے پاکستانی معاشرے کو دیکھیں۔ہمارے ہاں پچھلے دس دنوں کو ہی کسوٹی بنا لیں ایک ایسا معاشرہ نظر آئے گا جو نبی کریمﷺ کی ذات میں گستاخی کی صورت میں پوری دنیا سے لڑنے کے لیے تیار نظر آیا۔ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے مسئلہ پہ ہم نے پورے پاکستان کو جام کر کے رکھ دیا۔ جس میں ہر گلی ، چوک اور سڑک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کئی لوگ جان سے گئے سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ۔ کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا ۔علما ء کی ایک کال پہ تاجر برادری نے لبیک کہا اور شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال کر دی۔ یہ صورتحال ہر اس لمحے پیدا ہو جاتی ہے جب بھی کسی مسلمان یا غیر مسلم کی جانب سے مبینہ طور پہ نبی کریم ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرف بہت ہی مثالی حالت ہے کہ امت نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت میں کوئی نازیبا جملہ سننے کو تیار نہیں ہے۔لیکن دوسری طرف یہ عقیدت ذات النبی ﷺ کے دائرے سے نکل کر پیغام نبی ﷺ کو سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہ صورتحال تب بہت ہی نازک ہو جاتی ہے جب امت کا سماجی اور معاشی مفاد ذات النبی ﷺ کی عقیدت سے ٹکرانا شروع کرتا ہے۔اس وقت پاکستان ستانوے فیصد آبادی مسلمان کلمہ گو ہے۔ تمام وسائل پہ بلاشرکت غیرے مسلمان ہی بر اجمان ہیں ۔ مسند اقتدار بھی وہ کسی سے ساتھ بانٹنے کے روادار نہیں ہیں۔لیکن کبھی بھی اسلام کو معاشی مفادات سے ٹکرانے کے بعد ہم نے اپنے مفادات کو قربان نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "من غشا فليس منا" ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی حتمی اور یقینی طور پہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں چیز خالص ہے۔ملاوٹ کے ناسور نے ہماری نسلیں تباہ کر دی ہیں لیکن کوئی کلمہ گو نبی کریم ﷺ کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے ۔ جھوٹ بولنےاور وعدہ پورا کرنے کی تاکید بھی اسلام نے اتنی ہی سختی سے کی ہے لیکن ہم نے انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پہ جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنے کی روش بھی لمبے عرصے سے اپنا رکھی ہے۔ عدل و انصاف اسلام کا بنیادی ستون ہے ۔ اس کی تاکید نبی کریم ﷺ نے یہ کہہ کر کی کہ" میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوی کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔" لیکن ہمارے ہاں ہر طبقے کے لیے الگ عدالتی پروٹوکول ہے۔ ہماری عدالتیں جھوٹے مقدمات اور مقدمات جھوٹی گواہیوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ ہم نے اس ضمن میں کبھی بھی اپنے گریبان کو اسلام کے سامنے کھول نہیں سکے۔ کیونکہ پیغام النبی ﷺ یہاں ہمارے مالی اور سماجی مفادات سے ٹکرا جاتا ہے۔ ہم رمضان المبارک کی فیوض و برکات کے لیے دسترخوان بھی سجاتے ہیں۔ نماز روزے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ لاکھوں افراد سالانہ حج و عمرے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں ۔ محرم الحرام میں لاکھوں افراد مجالس بھی برپا کرتے ہیں ۔ تبلیغ کے نام پہ اجتماع بھی غیر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے کردار اور ہمارے بازار اسلام کی تعلیمات سے یکسر خالی نطر آتے ہیں۔ ہم دوسروں کا حق ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیا ئے خورد ونوش نایاب ہو کر سونے کے بھاو بکنے لگتی ہیں ۔ کرونا جیسی مہلک بیماری میں مددگار ادوایات کو کئی سو گنا مہنگے داموں فروخت کیا۔ہمسایہ ملک بھارت میں کرونا سے بگڑتی صورت حال کے پیش نظرہمارے ہاں ابھی سے آکسیجن کے سلنڈر ذخیرہ کرنا شروع کر دیے گئے ہیں جو کہ مجبور لوگوں کی زندگیوں کی قیمت پہ بیچے جائیں گے۔ لیکن ذات نبی ﷺ سے محبت کے مدعی پھر بھی ہم ہیں ۔ امت ذات النبی ﷺ پہ حملہ کی صورت میں مجاہد کی صورت میں نظر آتی ہے لیکن پیغام النبی ﷺ پہ عمل کے وقت ہم اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیغام نبی کی افادیت نبی کریم ﷺ کی سیرت سے یوں معلوم ہوتی ہے کہ آپ اس پیغام کی خاطر خود پہ کوڑا پھنکوا لیتے، لوگوں سے پتھر کھا لیتے ،جنگوں میں زخموں سے چور ہوئے ،اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان ہوتے دیکھا لیکن اس پیغام پہ حرف نہیں آنے دیا۔ ذات ِ نبی ﷺ سے عقیدت اور پیغام نبی ﷺ بغاوت ابولہبی رویہ ہے ۔ من حیث القوم ہم ابولہبیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسی لیے بے سکونی ، بے چینی ، بھوک افلاس اور لاقانونیت کی آگ گھر گھر لگی ہوئی ہے۔اب ہماری مذمت میں کوئی قرآن کی سورۃ تو نازل نہیں ہوسکتی لیکن نازل شدہ سورتوں میں ہم اپنا مقام بہتر تلاش کرسکتے۔اور اپنے انجام کو بھی بخوبی دیکھ سکتےہیں۔اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ نبی کریم ﷺ سے عقیدت کو اپنے کردار اور پھر اپنے بازار میں بھی لیکر آئیں تاکہ مخلوق خدا ہمارے شر سے محفوظ رہ سکے۔