Thursday 29 April 2021

قیام پاکستان کی بنیاد محض مذہبی نہ تھی

0 comments
قیام پاکستان کے بین لاقوامی محرکات کے نام سے چھپانے والا گزشتہ کالم تو صر ف اسی نقطہ کے ارد گرد تھا کہ جس زمانے میں پاکستان کا قیام عمل میں آ رہا تھا اس وقت بین الاقوامی دنیا کی سیاست کی شطرنج میں مہرے کس کس پوزیشن میں تھے ۔اور یہ بھی بات زیر بحث رہی کہ ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے پیچھے بین الاامی مفاد موجود تھا ۔ اسی مفاد کی کی پاسبانی ہم شاید آج تک کر رہے ہیں۔ جتنا ضروری یہ دیکھنا تھا کہ وہ کون سے بیرونی محرکات تھے جو تقسیم ہند ستان کے عمل میں برق رفتاری پیدا کر رہے تھے۔ اتنا ہی ضروری اس وقت کی ہندوستانی سیاست پہ بھی گہری نظر ڈالنے کی ہے تاکہ ہر سیاسی جماعت کی پوزیشن واضح ہو سکے۔ قیام پاکستان کے بعد جو نظریہ پاکستان تخلیق کیا گیا اس کی حقیقت بھی انہی سالوں کی سیاست کے قالین کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندگی کی سب سے بڑی دعویدار آل انڈیا نیشنل کانگریس تھی ۔ ایک وہ ہندوستان کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی جماعت تھی۔ دوسرا وہ پورے ہندوستان کی نمائندگی کرنے کا دعوی بھی کرتی تھی ۔ ان کے اس دعویٰ میں تقویت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسےبراہ راست مسلمانوں کی کثیر تعداد کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کئی علاقائی مسلمان جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ڈاکٹر ذاکر خان، سیف الدین کچیلو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی قدآور شخصیات بھی کانگریس کی ہمنوا تھیں اور سب اس بات پہ مصر تھے کہ ہندوستان کے متحدہ قومیت کے تصور کو تسلیم کیا جائے اور تقسیم ِ ہند کو کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا۔ہندوستان کی واحد نمائندہ ہونے کے دعویٰ میں اس وقت بھی تقویت پیدا ہو جاتی ہے جب 1936 کے انتخابات پہ نظر ڈالی جائے جب وہ پورے ہندوستان کی واحد کامیاب جماعت کے طور پہ ابھری اور آٹھ صوبوں میں بلاشرکت غیر حکومت بنائی۔
جمعیت علماء ہند کے پاس بھی مسلماقونوں کی کثیر تعداد کی رہبری کا دعوی تھا۔چونکہ دارالعلوم دیو بند مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے ساتھ سے ہی احیاء دین کے لیے کوشاں تھی اس لیے ایک لمبے عرصے تک ہندوستان میں دین کے لیے جدوجہد کرنے کے باعث عوام میں مقبولیت کا ہونا ایک فطری امر تھا۔ جمعیت علما ء ہند دارالعلوم دیوبند کا سیاسی بندوبست تھا۔اس کی بنیاد 1919میں مولانا عبدالمحاثم ساجد، قاضی حسین احمد ، احمد سعید دہلوی ، عبدالباری فرہنگی محلی نے رکھی تھی ۔یہ کانگریس کی ہمنوا تھی۔مولانا حسین احمد مدنی صاحب، مفتی کفایت اللہ صاحب سمیت کئی جید علما نے بانگ دہل قیام پاکستان کےموقف کی مخالفت کی اور شرعی اعتبار سے اسے ممنوع قرار دیا۔مولانا حسین احمد مدنی صاحب کے مطابق اقوام اوطان (وطن کی جمع) سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں۔وہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے موجد اور مسلم لیگ میں شمولیت حرام ہے کے فتوی کے خالق بھی تھے۔
جماعت الاحرار جو تحریک خلافت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی تھی ۔ علامہ عطا ء اللہ شاہ بخاری، علامہ مظہر حسین اظہر مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی جیسےجوشیلے مقرر اور علما اس کا علم اٹھائے ہوئے تھے۔یہ قیام پاکستان کے مخالف تو تھے ہی لیکن ساتھ ہی اپنے مخالفین خصوصا مسلم لیگی قیادت کو اخلاق سے گھٹیا القابات سے پکارنا ان کا شیوا تھا۔ جیسے قائد اعظم کو کافر اعظم، پاکستان کو پلیدستان سمیت کئی دیگر القابات جماعت الاحرار کے پلیٹ فارم سے ہی تخلیق کیے گئے۔سیاسی اعتبار سے یہ بھی قیام پاکستان کے مخالف تھے اور پورے ہندوستان کو آزاد کر کے خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتے تھے۔تقسیم ہند کے بعد جماعت الاحرار کی قیادت پاکستان تشریف لے آئی مگر ان کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی ۔ 1953 میں پنجاب میں ہونے والے فسادات کے پیچھے جماعت الاحرار ہی کا ہاتھ تھا۔
ایک اور بڑی مذہبی سیاسی جماعت جماعت اسلامی تھی جس کے بانی اور قائد مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ تھے۔ موصوف بھی قیام پاکستان کے خلاف تھے جس کا اندازہ ان کے اس مختصر قول زریں سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمد علی جناح جنت الحمقا( احمقوں کی جنت) کا بانی اور اور اجل ِ فاجر ہے۔ پاکستان جنت الحمقا اور کافروں کی حکومت ہو گی۔اگرچہ مولانا مودودی صاحب کی قیام پاکستان مخالف سیاسی سوچ پہ کئی صفحات لکھے جا سکتے ہیں لیکن جامعیت کے اعتبار سے ان کا یہ مختصر جملہ ہی کافی وشافی ہے ۔اور مولانا کا یہ موقف قیام پاکستان کے بعد بھی ضروری ترامیم کے ساتھ برقرار رہا۔
اہل تشیع حضرات کی نمائندہ مومن کانفرنس شمال مشرقی ہندوستان کی ایک زبردست تنظیم تھی۔ یہ بھی پسماندہ مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار تھی ۔سیاسی اعتبار سے یہ جماعت بھی آل انڈیا نیشنل کانفرنس کی ہم خیال تھی۔ انہوں نے 1943 میں ایک قرار داد پاس کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اور قومی حمیت کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ اپنی مادر وطن کو تقسیم کر کے اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دے۔اس کے علاوہ آل انڈیا شعیہ کانفرنس، آل انڈیا مسلم مجلس، جمعیت اہل حدیث، انجمن وطن (بلوچستان)،ساوتھ انڈیا سیپریشن کانفرنس جیسی دیگر مسلمان تنظیمیں بھی تقسیم ہندوستان کی شدت سے مخالف تھیں ۔تقسیم ہندوستان کی مخالف تنظیموں کے پلیٹ فارمز سے جذبات ابھارنے کے لیے اشعار پڑھے جاتے تھے ان کا اندازہ شمیم کرہانی کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم کو بتلاؤ تو کیا مطلب ہے پاکستان کا جس جگہ اس وقت مسلمان ہیں نجس ہے کیا وہ جگہ نیش تہمت سے ترے ، چشتی کا سینہ چاک ہے جلد بتلا کیا زمین اجمیر کی ناپاک ہے تمام مذہبی جماعتیں بلاتفریق قیام پاکستان کی مخالفت تھیں ۔ یہ ضرور ہے کچھ علما اکرام جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی وغیرہ اپنی ذاتی حیثیت میں مسلم لیگ کے حامی تھے لیکن ان کا جماعتی نظم و ضبط قیام پاکستان کے مخالف ہی رہا۔ مذہبی جماعتوں کے علاوہ کچھ ایسی علاقائی جماعتیں بھی تھیں جو مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھیں ۔ جیسے پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت یونینسٹ پارٹی تھی جس نے ایک لمبے عرصے تک پنجاب پہ حکومت کی تھی۔ سر فضل حسین اور سر سکندر حیات جیسی قد آور شخصیات اس پلیٹ فارم سے پنجاب کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ یہ انگریزوں کی سرپرستی حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو پنجاب کے باسیوں کے لیے مراعات لینا آسان ہوا۔ یہ جماعت بھی کانگریس کی ہمنوا تھی اور متحدہ ہندوستان اس کا سیاسی منشور تھا۔ 1946 کے انتخابات سے قبل جناح –سکندر معاہدے کی بدولت مسلم لیگ کے لیے پنجاب میں حالات کچھ سازگار ہوئے۔ اس معاہدے کا بعد میں کیا بنا یہ الگ سے ایک دلچسپ داستان ہے۔ لاہور ہی کو مرکز بنا کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنے والی ایک اور تنظیم خاکسار تحریک تھی۔ حمیدالدین مشرقی اس کے روح رواں تھے خاکی شرٹ اور ہاتھ میں بیلچہ ان کی پہچان تھا۔رفیق نامی ایک خاکسار کارکن نے قائد اعظم پہ قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا۔ تحریک پاکستان میں متحدہ ہندوستان ان کے سیاسی نظریات کا مرکز تھا۔اسی طرح خان عبدالغفار خان عرف باچہ خان جنکو سیاسی نظریات میں پرامن اور عدم تشدد جیسے نظریات رکھنے پہ لوگ سرحدی گاندھی کے نام سے یاد کرتے تھے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا ٹرایبیوٹ تھا۔ باچہ خان بھی متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے۔باچہ خان ہماری قومی تاریخ کا ایک بدنصیب کردار ہے جس کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد ریاستی اداروں کی طرف سے انتہائی نامناسب سلوک روا رکھا گیا جس کی تفصیلات کے لیے الگ سے کالم لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن جس تناظر میں بات آج کی جا رہی وہ قیام پاکستان کے مخالف کیمپ میں ہی نظر آتے ہیں ۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام 1906 میں انگریزوں کی ایما پہ ہی عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد عوام میں مقبول ہوتی آل انڈیا نیشنل کانگریس پہ دباو ڈالنا تھا۔ مسلم لیگ عرصہ دراز تک محض ڈرائنگ روم کی سیاسی جماعت تھی ۔ جو اپنے سالانہ جلسے کے علاوہ عوامی میٹنگز کا اہتمام نہیں کرتی تھی۔ بڑے بڑے نواب اور رئیسان ِ وقت اس کے نمائندہ ہو ا کرتے تھےجو کانگریس کو چیک اینڈ بیلنس کے دوران انگریزوں سے مراعات حاصل کر لیا کرتے تھے۔ مسلم لیگ کے قد کاٹھ کا اندازہ 1936 کے انتخابات سے لگایا جا سکتا ہے جہاں اسے پورے ہندوستان سے کوئی پذیرائی حاصل نہ ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس کے سربراہ بنے تو اس کی تنظیم نو کی گئی جس سے مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن سمیت دیگر ذیلی تنظیمیں بنی، مسلم لیگ کے نمائندہ اخبارات کا اجراء کیا گیا تو مسلم لیگ قومی سطح پہ متحرک ہوئی ۔ قائد اعظم کی ساری زندگی ہندوستانی عوام کی آئینی حقوق کے حصول میں جدوجہد کے دوران گزری۔ کانگریس میں دادا بھائی نوروجی اور گھوکھلے جیسے اعتدال پسند رہنماوں کی جگہ موتی لال نہرو، گاندھی اور لالہ لاجپت رائے جیسے تنگ ذہنیت کے حامل رہنما وں نے کانگریس کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو جناح صاحب نے کانگریس کو خیر باد کہہ کر مسلمانوں کے آئینی حقوق پہ توجہ مرکوز کر لی۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس طرح مسلم لیگ پورے منظر نامے پہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے مطالبے میں علیحدہ وطن کا حصول شامل تھا ۔ 1945 کے انتخابات اس سلسلے میں تب ایک ریفرنڈم کی شکل اختیار کرگئے جب قائد اعظم نے اپنے اخباری بیان میں کہہ دیا کہ اگر مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہو جائے گی۔ ایسی نازک صورت حال میں بھی مذکورہ بالا تمام سیاسی جماعتوں نے اپنا وزن آل انڈیا نیشنل کانگریس کے پلڑے میں ہی ڈالا۔اس لیے قیام پاکستان کے مقاصد کا تعین بھی مسلم لیگ ہی کا صوابدید ہونا چاہیے ناکہ اس کے مخالف عناصر کو یہ موقعہ دیا جائے کہ وہ اس کی منزل کے تعین میں حتمی کردار ادا کریں۔ اب آخر پہ اس نعرے کی بابت بات کرتا چلوں جس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الااللہ ۔یہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے شاعر اصغر سودائی کی نظم کا حصہ تھا جیسے 1946 کے انتخابات کے دوران لوکل سطح پہ لوگوں کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے لیے پڑھا گیا۔ وہ شعر و شاعری کا دور تھا لوگ اپنی تقریروں میں طویل نظمیں پڑھا کرتے تھے اور مقبول شعراء کا سیاسی جلسوں میں خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔اسی طرح اصغر سودائی بھی جب سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کا پیغام لیکر نچلی سطح تک عوام میں گئے تو وہ اپنا کلام پڑھ کر عوام کا لہو گرمایا کرتے تھے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا مسلم لیگ کی کسی مرکزی یا صوبائی تنظیم نے اس نعرے کو اپنے پلیٹ فارم سے لگایا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔یہ نعرہ صرف ایک مرتبہ مسلم مشائخ کانفرنس کے موچی دروازے کے باہر منعقد ہونے والے جلسے میں لگایا گیا جس کا اہتمام پیر جماعت علی شاہ صاحب نے مسلم لیگ کی الیکشن کیمپین کی حمایت میں کیا تھا۔ کیونکہ علما کے برعکس درگاہوں کے متولیوں اور صوفیاکے پیروکاروں کا جھکاو مسلم لیگ کی جانب تھا۔ سر یامین اور نواب صاحب آف محمود آباد جیسے قائد اعظم کے انتہائی قریبی اور بااعتماد لوگ اپنی سوانح عمر ی میں یہ بات لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری سالانہ اجلاس کراچی کے دینا ہال میں ہوا جس کی صدارت قائد اعظم نے کی۔ بہار سے آئے ہوئے لوگوں نے قائد اعظم سے سوال کیا کہ کیا مستقبل کے پاکستان کی نوعیت ایسی ہو گی جیسا ہمیں نعرہ سننے کو مل رہا ہے؟ ان کا اشارہ اسی نعرے کی جانب تھا ۔ قائد اعظم نے بہار کے وفد سے کہا آپ بیٹھ جائیے ۔ بیٹھ جائیے ۔بیٹھ جائیے۔ پھر آگے فرمایا کہ ہاں یہ بات میرے علم میں بھی آئی ہے کہ نچلی سطح پہ چند ایک ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ نعرہ لگایا گیا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مستقبل کا پاکستان ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
اس نعرے کی حقیقت کا پتہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی شعور کے اعتبار سے بنگال سب سے باشعور خطہ تھا۔ مسلم لیگ کی بنیاد بنگال میں رکھے جانے کے علاوہ پاکستان کی قرار داد پیش کرنے والے بھی بنگالی ہی تھے۔قیام پاکستان کے بعد آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا جس میں 54فیصد آبادی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ نعرہ پاکستان کی تحریک کا روح رواں تھا تو بنگال اس سے بے خبر کیوں تھا؟ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں کئی تحریکیں چلیں لیکن کسی ایک تحریک میں بھی یہ بات نہیں دہرائی گئی کہ پاکستان اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا ہے لہذا اس میں اسلام نافذ کیا جائے۔بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم اور حسین شہید سہروردی جیسے تحریک پاکستان کے فرنٹ لائن لیڈر بعد ازاں پاکستان کے وزرائے اعظم بھی بنے لیکن کبھی اس بات کا اعادہ نہیں کیا۔ یہ صورت حال اور بھی بہت ہی دلچسپ ہو جاتی ہے کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پاکستان اسلام کے نام پہ قائم کیا گیا تھاتو اس وقت کی مذہبی قیادت کے مقام کا تعین کرنا آج کے پیروکاروں کے لیے بہت ہی مشکل ہو جائے گا کیوں جن لوگوں نے پاکستان کے لیے جدوجہد کی وہ تب کے مذہبی راہنماوں کے مطابق گمراہ، بےدین، حتیٰ کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والے تھے۔ اور بانیان پاکستان کے مطابق پاکستان کی بنیادیں سیکولر تھیں۔ اور ان کا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا عقدہ ترک کر دیں گے۔بلکہ ان کی رائے تھی کہ سیاسی اعتبار سے سب ایک قوم کے شہری ہوں گے۔اور مذہب ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہو گا۔
جنا ح صاحب نے اپنی حکومت کی پالیسی کی وضاحت 13 جولائی 1947 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی۔جس میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گی اور غیر مسلم اقلیتوں کو ہر لحاظ سے مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔انہوں نے کہا پاکستان ڈومینین میں اقلیتوں کے مذہب ، عقیدے ، جان ومال اور ثقافت کا تحفظ ہو گا۔وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔اور ان کے ساتھ کسی بھی طرز کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔اقلیتوں کو ریاست کا حقیقی وفادار ہونا پڑے گا۔اسی کاپریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہو گی یا تھیو کریٹک تو ان کا جواب تھا یہ سوال احمقانہ ہے مجھے معلوم نہیں کہ تھیوکریٹک ریاست کا مطلب کیا ہے؟ اس پہ صحافی نے کہا تھیوکریٹک ریاست کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مسلمان تو پورے شہری ہوں گےاور غیر مسلم پورے شہری نہیں ہوں گے۔تو قائد اعظم نے کہا پھر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ رائیگاں چلا گیا جو اب تک میں نے کیا ہے۔خدا کے لیے ایسے بیہودہ خیالات اپنے ذہن سے نکال دیں۔ چنانچہ جناح کے پاکستانی نیشلزم میں مسلم کو غیر مسلم پہ کوئی برتری حاصل نہیں تھی۔ان کے نزدیک پاکستان کی جیوگرافیائی حدود میں آباد ہر شخص کو بلا تفریق مذہب اور عقیدہ ایک شہری کے حقوق اور ترقی و خوشحالی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ان کا نظریہ پاکستان جیوگرافیائی سرحدوں پہ مبنی تھا۔بعد ازاں عوام دشمن ملاوں اور فوجی آمروں نے اپنے غصب شدہ اقتدار کا نظریاتی جواز مہیا کرنے کے لیے نظریاتی سرحدوں کا جو نعرہ گھڑا اس کا قائد اعظم محمدعلی جنا ح نے پاکستانی نیشنلازم سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ ابو بکر صدیق,لاہور

مقدمہ ||<علامہ اقبال ۔۔۔اور مصور پاکستان کی تہمت

0 comments
قیام پاکستان سے قبل جدوجہد پاکستان کی جیوگرافیائی سرحدوں کے حصول کے لیے تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ جس نقطے کے گرد گھومتی ہے وہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ ہے۔ہم نے اسی نقطے کا استعمال کرتے ہوئے نظریاتی مملکت، اسلامی ریاست، اسلامی نظام ، نفاذ شریعت ، حکومت الہیہ کا قیام، جیسی اصطلاحات کو قومی یاداشت کا لازمی حصہ بنایا گیا۔اس امر کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اس کا ذکر سرسری طور پہ گزشتہ کالم قیام پاکستان کے بیرونی محرکات میں کیا گیا تھا لیکن تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد بنگال کے عوام نے اپنے معاشی وسائل کو اپنے اوپر صرف کیے جانے کا مطالبہ کیا ، ملازمتوں میں اپنے جائز حصے کی بات کی، یا آبادی کے تناسب سے وسائل کی تقسیم پہ زور دینا چاہا تو اس "پست قد حقیر مخلوق" کو ان کی اوقات یاد کروانے کی جائزیت اسی نظریہ نے دی۔ سندھ، سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ نظریاتی سرحدوں کو تصور ہی ان سر کش عناصر کو نکیل ڈالنے کی نوید بنتا ہے ۔اسی کی چھتر چھاوں تلے ہم نے ان تمام معاہدات کو پاوں تلے روند ڈالا جو ریاست پاکستان نے ان ریاستوں سے کیے تھے جنھوں نے تقسیم ہندوستان پہ بھارت کی بجائے پاکستان پہ اعتماد کیا تھا۔ اس ریاستی بندوبست میں سب سے اہم علامہ اقبال کا تصور پاکستان ہے۔ ریاستی بیانے کے مطابق یہ ہی وہ نقطہ ماسکہ ہے جس کے گرد سارا تانا بانا بنا گیا۔اس ضمن میں چند ایک سوالات ہیں جن کے جوابات ریاستی نصاب فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ سارا زور ان جوابات تک پہنچنے والے راستوں کو مسدود کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ کیا علامہ اقبال نے بیان کردہ تصور پاکستان پیش کیا تھا؟کیا اقبال خود مختار ریاست کے قیام کے حامی تھے؟ کیا اقبال وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں دو آزاد اور خودمختار ریاستوں کا حل تجویز کیا تھا؟کیا تحریک پاکستان میں کبھی اقبال کے مجوزہ تصور پاکستان کی بازگشت بعد کے سالوں میں بھی سنائی دی؟خود مختاری کے اصول پہ اقبال کا اپنا کیا موقف تھا؟ اگر ہم ان سوالات کے جوابات کے لیے تاریخ کے دروازے پہ دستک دیں تو حیرت انگیز اور چشم کشا حقائق ہمارے منتظر ہوں گے۔ نصابی تاریخ قیام پاکستان کو جب ایک نظریاتی ریاست سے تعبیر کرتی ہے تو وہ اس کی بنیاد 1930 کے خطبہ آلہ باد کو بنیاد کے طور پہ پیش کرتے ہیں ۔علمی خیانت کی اس سے بڑی کوئی مثال اور ہو ہی نہیں سکتی کہ کسی بھی لیول پہ یہ خطبہ سارے کا سارا پڑھایا نہیں جا تا بلکہ اس کا ایک درمیانی ٹکڑا سیاق و سباق سے ہٹ کر لکھا جاتا ہے ۔ ’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ، خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو، ایک مربوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘‘ علامہ اقبال کے اس بیان میں لفظ خود مختار (Autonomous)اصل خطبے میں موجود نہیں ہے اسے نظریہ ساز اداروں نے بعد میں منسلک کیا ہے ۔علامہ اقبال کا سارا خطبہ سائمن کمیشن کی ہندوستان میں آمد کے بعد کے سیاسی حالات کے پس منظر میں ہے ۔ جس میں آل پارٹیز کانفرنس، نہرو رپورٹ ، آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور جناح کے 14 نکات شامل ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے خطبے میں ہندوستان کے لیے ایک فیڈریشن کا نظام تجویز کیا جو کہ پچھلے چند ایک سالوں میں ہندوستان میں جنم لینے والا ایک مقبول تصور تھا۔سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور بلوچستان صوبہ سرحد اور پنجاب کو آپس میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی۔کیااقبال اس تصور کے بانی تھے ؟ اس کا جواب بھی علامہ اقبال اپنے اسی خطبے میں خود ارشاد فرماتے کہ یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی جسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا تھا کہ "اگر اس قسم کی ریاست قائم ہوئی تو یہ بے ہنگم طور پر وسیع و عریض ریاست ہو گی جس کا انتظام کرنا دشوار ہو گا" اس کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ اگر انبالہ ڈویژن جو ہندو اکثریت کا تھا، نکال دیا جائے تو یہ مجوزہ ون یونٹ کا صوبہ قابل عمل ہو جائے گا۔ رینان کے ’’قوم‘‘ کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا ’’اگر اکبر کا دین الٰہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہو جاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہو جاتی لیکن تجربہ بتلاتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس قسم کا کوئی رجحان نہیں کہ وہ اپنی حیثیت کو ترک کر کے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کر لیں۔ قومیت ہند کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون اور اشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ میری رائے میں ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر صرف اس بات پر مبنی ہے کہ ہم قومیت ہند کا اتحاد اسی اصول پر قائم کریں۔‘‘ آگے چل کر کہا: ’’میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی جانب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار حل کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اپنے ہندوستانی مادر وطن کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ آپ نے ون یونٹ کا صوبہ تجویز کرنے کے بعد آگے چل کر کہا کہ ’’اس سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری مضبوط ہو گا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقع دیا جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما پا سکیں تو وہ ہندوستان کے خلاف تمام حملوں کی صورت میں چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیالات، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے وفاق ہندوستان کے دفاع پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور کہا ’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی رضامند ہو جائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانبدار فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھیں۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسر ہندو تھے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہو گا۔‘‘ علامہ نے اصل میں مسلم لیگ کے سرکاری موقف کے بارے میں کہ برصغیر میں ایک ڈھیلا ڈھالا وفاق قائم کیا جائے یہ خطبہ بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اس میں صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا جو مطالبہ کیا وہ بھی مسلم لیگ پہلے سے کر رہی تھی۔ اس خطبے میں آپ نے ایک جگہ سندھ اور بلوچستان کو باہم ضم کر کے ایک صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مجوزہ وحدانی طرز کی مضبوط مرکز کی حکومت کی مخالفت کی اور کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ میں تمام اختیارات ما البقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں 33 فیصد نشستیں نہ ملیں۔‘‘ آپ نے مسلم اکثریت پر مبنی خودمختار ریاستوں یعنی صوبوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ’’ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان علاقوں میں ایک طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔‘‘ آپ نے اس کے لیے ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کے حوالے سے بتایا کہ’’ باوجودیکہ اسلام میں سود لینا حرام ہے ، مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر پابندی نہیں لگائی تھی۔‘‘اقبال کے خطبے کو تفصیلی جان لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ اقبال نے کسی خود مختار (Sovereign) ریاست کا تصور نہیں پیش کیا تھا۔ اقبال کے خطبے کو پڑھ لینے سے واضح تو ہوا لیکن پھر بھی ابہام ذہن میں ہو سکتا کہ ہم نے اقبال کے خطبے کی تشریح اپنے مقصد کے مطابق کر لی ہو۔ اقبال نے اگر ایسا نہیں کہا تھا تو وہ خطبہ آلہ آباد کے سات برس بعد تک زندہ رہے تو کیا انہوں نے خود اس کی تردید کی؟تو اس کا جواب بھی اثبات میں ہے۔ 1934 میں اقبال کی کتاب رموز خودی کا انگریزی میں ترجمہ چھپا تو اس کی ایک کاپی آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ای،جے تھامپسن کو بھجوائی جنہوں نے اس پہ اپنا ریویولکھا اور 1933میں چوہدری رحمت علی خان کے پمفلٹ "Now or Never" میں ہندوستان کے سیاسی حل کو علامہ اقبال کے خطبہ آلہ آباد کا تسلسل قرار دیا۔علامہ اقبال نے وہ ریویو پڑھا تو پروفیسر ای۔ جے تھامپسن کو خط لکھا ۔ یہ خطوط علی گڑھ یونیورسٹی نے شائع بھی کیے ہیں۔ آپ نے لکھا" ۔۔۔آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ ہو گا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ ‘‘ کیا قائد اعظم محمد علی جناح جو کہ مسلم لیگ کے کاروان کے واحد میرکارواں تھے بھی اقبال کے تصور پاکستان سے لاعلم تھے؟ انہوں نے کبھی اپنے کسی خطبے میں یا مسلم لیگ نے اپنی کسی سرکاری قرار داد میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ 1938ء میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا۔ دسمبر 1938ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ پٹنہ میں اس سال کے دوران وفات پانے والی تین معتبر شخصیات مولانا شوکت علی، کمال اتاترک اور علامہ اقبال کے بارے میں قائد اعظم نے اپنے صدارتی خطبہ کے اختتام پر تعزیتی الفاظ کہے۔ آپ نے علامہ کے بارے میں فرمایا “His death too is an irreparable loss to Muslim India. He was personal friend of mine and a singer of the finest poetry in the world. He will live as long as Islam will live. His able poetry interprets the true aspiration of the Muslims of India. It will remain an inspiration for us and for generations after us.” ترجمہ : ’’ اُن کی وفات مسلم ہند کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔وہ میرے ذاتی دوست تھے۔اور دنیا کی عمدہ ترین شاعری کے مغنی تھے۔وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔آپ کی پر مغز شاعری مسلمانان ہند کی امنگوں کی سچی ترجمانی کرتی ہے۔یہ شاعری ہمارے لئے اور ہمارے بعد کی نسلوں کے لئے ولولہ مہیا کرتی رہے گی۔‘‘ بات قابل غور ہے کہ قائد اعظم کے ہاں اقبال کی اہمیت کے کون سے گوشے قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے قبال کو اسلام سے وابستگی ، عالمگیر شاعری اور ذاتی دوستی کی بنا پر گراں قدر خراج تحسین پیش کیا ۔اسی اجلاس میں مسلم لیگ نے جوتعزیتی قرار داد پاس کی۔ اس میں بھی آپ کو اسلام کے سنجیدہ فلسفی “a sage philosopher of Islam”اور عظیم قومی شاعر “great national poet”کی حیثیت سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اور اگر اقبال نے کوئی منفرد تصورپیش کیا ہوتا تو مسلم لیگ اپنے سابقہ صدر کی خدمات کو قومی سطح پہ لازمی سراہتی۔ تحریک پاکستان میں 23 مارچ 1940 کی قرار داد لاہور ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں سے مسلمانان ہند نے اپنی نئی اور واضح منزل کا نہ صرف تعین کیا بلکہ اس کے حصول کے لائحہ عمل بھی تشکیل دیا۔علامہ اقبال کی وفات کے دو سال بعد ان کی قبر کے سرہانے مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اس بات کا عہد کر رہے تھے کہ اب خود مختار ریاست سے کم ہرگز کچھ قبول نہ کیا جائے گا۔ لیکن اس جلسے میں قائد اعظم سمیت کسی بھی مسلم رہنما نے علامہ اقبال کا ذکر تک نہیں کیا۔کیا مسلم لیگ کی لیڈر شپ کی یاداشت اس قدر کمزور تھی کہ دو برس قبل دنیا سے رخصت ہونے والے عظیم رہنما جس نے دس سال قبل یہی بات کہی ہو ان کی خدمات کو ان کی قبر کے سرہانے فراموش کر دیا۔ صورتحا ل مذید دلچسپ تب ہو گئی جب قائد اعظم نے اپنی طویل افتتاحی تقریر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے مطالبے کی حمایت میں ماضی کا جو حوالہ دیا وہ تھا تو پنجاب سے لیکن وہ اقبال نہیں تھے بلکہ پنجاب کے مہاسبھائی لیڈر لالہ لاجپت رائے کا تھا جنھوں نے 1924ء میں اخبار ٹریبیون میں اپنے ایک مضمون میں برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کی سکیم پیش کی تھی۔ غالباً یہ برصغیر میں پہلی بار تھا کہ ایسی کوئی سکیم پیش کی گئی تھی۔ اس کی سکیم یہ تھی کہ ’’مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی۔ (1) پٹھانوں کا صوبہ یا شمال مغربی سرحد۔ (2) مغربی پنجاب (3) سندھ اور (4) مشرقی بنگال۔ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا اور غیرمسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘‘ قائد اعظم نےخطبہ صدارت کے دوران انہی دنوں چھپی اندر پرکاش کی کتاب نکالی جس میں لالہ لاجپت رائے کا ایک خط شامل تھا جو اس نے 16 جون 1925ء کو کانگرس کے صدر سی۔آر۔داس کو لکھا تھا۔ قائد اعظم نے یہ پورا خط پڑھ کر سنایا جس میں لاجپت رائے نے جو لکھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ’’میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہمارے لیے کوئی راہ نجات نکالنی چا یے۔‘‘ مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی تو اس کی تائید میں پنجاب سے چودھری خلیق الزمان کے علاوہ مولانا ظفر علی خان نے بھی تقریر کی۔ ان کے علاوہ جن اصحاب نے تقریر کی ان میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کے سردار اورنگ زیب، صوبہ سند ھ کے سر عبداللہ ہارون، صوبہ بہار کے نواب محمد اسماعیل، صوبہ بلوچستان کے محمد عیسیٰ خان، مدرس کے عبدالحمید خاں، بمبئی سے اسماعیل چندریگر، سی ۔پی کے عبد الرؤف شاہ اور ڈاکٹر محمد عالم شامل تھے۔ ڈاکٹر عالم نے کہا کہ ایسی ہی سکیم غدر پارٹی کے بھائی پرمانند نے 1914-15 میں بھی پیش کی تھی۔ لاہور کے رہنے والے مولانا ظفرعلی خان جو کہ ایک باخبر صحافی بھی تھے سمیت کسی نے بھی حوالہ نہ دیا کہ مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصور علامہ اقبال نے 10 سال پہلے پیش کیا تھا۔ 1940 کی قرار داد کا اصل نام قراد داد لاہور ہی تھا جیسے 1942 میں لفظ پاکستان کے اضافے کے ساتھ قرار داد پاکستان قرار دیا گیا پھر برطانوی ہندوستان میں ہونے والے آخری انتخابات میں اسے انٹخابی منشور کا حصہ بنا لیا گیا لیکن اگر نہیں ہو سکا تو وہ تصور پاکستان کو اقبال سے نہیں جوڑا جا سکا۔مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا کہ کسی نے پاکستان کو اقبال کے خطبہ آلہ آباد سے جوڑا ہو۔ حالانکہ 1943ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی میں انور قریشی نے جلسہ کے شروع میں ترانہ ’’چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا‘‘ پڑھ کر سنایا اور اسی اجلاس میں جی ایم سید نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کے اشعار کا استعمال کیا۔ اور پھر قائد اعظم نے صدارتی تقریر کی۔ مگر علامہ کا تصور پاکستان کے خالق کے طور پر کسی نے ذکر نہ کیا۔قیام پاکستان کے بعد ایک مرتبہ اقبال کا یوم پیدائش 9 نومبر 1947 کو اور ایک مرتبہ یوم وفات 21 اپریل 1948 کو آیا ۔ ان دونوں موقعوں پہ قائد اعظم حیات تھے۔ نہ تو قائد اعظم نے ان موقعوں پہ کوئی سرکاری بیان جاری کیا اور نہ ہی حکومت نے ان ایام کو سرکاری طور پہ منایا۔ اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ تصور ہمارے ہاں اتنے زور شور سے رائج ہے تو پھر اس نے کب اور کیسے جنم لیا۔اس کے پیچھے کون سے محرکات تھے؟ ا سکا جواب قیام پاکستان کے بعد آبادی کی نقل و حرکت سے کمپوزیشن میں آنیوالی تبدیلی میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ تحریک پاکستان میں پنجاب کی شمولیت بہت بعد میں ہوئی۔ سر سکندر حیات نے جناح سے معاہدہ کیا تو 1945-46کے انتخابات میں مسلم لیگ پنجاب سے کامیاب ہوئی۔ جبکہ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کا کردار بہت فعال رہا تھا۔ صوبہ سندھ بھی بمبئی سے علیحدگی کے بعد مسلم اکثریتی صوبہ بنا تو تحریک پاکستان کی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ 1938ء میں سندھ مسلم لیگ پراونشل پارٹی نے جی۔ایم۔سید اور مولانا عبد المجید سندھی کی قیادت میں یہ قرارداد پہلی بار منظور کی تھی کا مسلمانوں کا الگ وطن ہونا چاہئے۔ لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا کیونکہ جی ایم سید کے قاید اعظم کے ساتھ 46 کے انتخابات کیلئے انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف ہو ا اور سید ہمیشہ کے لئے مسلم لیگ کا مخالف ہو گیا یہاں تک کہ بعد میں قیام پاکستان کا بھی مخالف ہو گیا۔ تاہم تاریخی حقیقت کے طور پر سندھ پراونشل مسلم لیگ کی قرار داد جو 1940 سے پہلے اور لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی نوعیت کی پہلی قرارداد تھی۔ پھر آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ مہاجروں کی صورت میں نئی مملکت کا حصہ بنا تھاجن میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان ، اسماعیل چندریگر، کئی وزرا بھی شامل تھے ان کا زمین کے ساتھ کوئی جذباتی رشتہ نہیں تھا ۔اس لیے پنجابی اور مہاجر شاونسٹوں دونوں کی یہ سیای ضرورت تھی۔ وہ جغرافیائی سرحدوں کے بجائے نظریاتی سرحدوں کے نام پر یہاں اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتے تھے۔پنجابی بنگالیوں کے مقابلے میں اپنی عددی کمی کو کسی بھی سیکولر ریاست کے ڈھانچے میں جو قائد اعظم کے دستور سازی کے تصور پر مبنی ہوتی ایک غالب قوت میں نہیں بدل سکتے تھے۔ چنانچہ نظریہ پاکستان کی ان کو بھی بڑی شدید ضرورت تھی جس کے لئے پنجابی علامہ اقبال سب سے موزوں شخصیت ہو سکتے تھے۔

ہمارے اسلام کے پیچھے چھپی ہماری ابو لہبیت

0 comments
ابولہب نبی کریم ﷺ کا چچا تھا۔جس کا اصل نام عبدالعزیٰ بن عبدلمطلب تھا۔ ابو لہب یعنی آگ کا باپ کی کنیت سے شہرت پائی۔ اس شخص کی مذمت میں قرآن پاک کی پوری سورۃ نازل کی گئی۔جس میں اس کے درد ناک انجام کی پیش گوئی بھی کی گئی۔ ابو لہب نبی کریم ﷺ کا حقیقی چچا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺکی ولادت سے قبل اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ کے سبھی چچا آپ ﷺ کی ولادت پہ بہت زیادہ خوش تھے کہ ان کے مرحوم بھائی کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ ابو لہب کی خوشی تاریخ کی کتابوں میں اسطرح محفوظ ہوئی کہ اس نے اپنی لونڈی ثویبہ نبی کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں چھوڑ رکھی تھی تاکہ اپنے بھائی کے ہاں آنے والی خوشی سے بروقت خبر پا سکے۔ نبی کریم ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو وہ لونڈی اپنے مالک کو اطلاع دینے لیے بھاگ کر گئی ۔ ابولہب نے اپنے ہاں بھتیجے کی آمد کی خبر سنی تو خوشی میں اُسی وقت اپنی اس لونڈی کو آزاد کر دیا۔نبی کریم ﷺ نے ولادت کے بعد اُسی خاتون کا دودھ بھی پیا۔یہ ابولہب کی نبی کریم ﷺ کی ذاتِ کریمہ سے محبت کا اظہار تھا۔ سیرت النبیﷺ کی کتب میں بعد کے واقعات ابولہب کے حوالے سے زیادہ میسر نہیں ہیں لیکن ایک اوربات ایسی ضرور ملتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابولہب کی نبی کریم ﷺ کی ذاتِ کریمہ سے محبت میں ایک تسلسل تھا کیونکہ اسلام کی دعوت سے قبل نبی کریم ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے کر رکھے تھے۔جو کہ یقینا اچھے اور خوشگوار تعلقات کی نشانی ہے۔ اس رشتہ کی نوعیت اس وقت بلکل تبدیل ہو گئی جب نبی کریم ﷺ نے نزول وحی کے بعد اپنے خاندان کے لوگوں کو اپنے ہاں دعوت پہ بلایا اور انہیں اللہ کے پیغام کی طرف بلایا۔یہ پیغام اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم ﷺ کی رسالت پہ ایمان لانے کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی مساوات سے بھی لبریز تھا۔ جس کو قبول کرنے لینے کا مطلب جہاں ایک طرف اپنی حیثیت اور رتبے میں نہ صرف کمی لانا بلکہ دوسروں کو اپنے برابر کا سمجھنا بھی شامل تھا۔کیونکہ اسلام عظمت کے معیار کو تبدیل کر کے مال و زر کی جگہ تقوی ٰ کو وہ کسوٹی قرار دیا جس پہ خالق اپنی مخلوق کو پرکھے گا۔ وہیں پہ دوسری جانب معاشی استحصالی نظام سے ہاتھ کھینچ لینا بھی شامل تھا۔ ان کے معاشی نظام کی بنیاد سود پہ قائم تھی جسے اسلام زمین بوس کرنے جا رہا تھا۔ اس لیے ابو لہب کو اپنی سماجی حیثیت میں کمی اور اپنے معاشی مفادات کو ٹھیس پہنچتی نظر آئی تو اس نے اس مجلس کا بائیکاٹ کر دیا ۔ بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت کرنے والا ابو لہب اپنے سماجی اور معاشی مفادات سے ٹکراو کی صورت میں اسی بھتیجے کا سب سے بڑا دشمن بن گیا۔اس نے اپنی بیوی ام جمیل کے ہمراہ نبی کریم ﷺ کو اذیت پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اپنے بیٹوں سے نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دلوا کر آپ ﷺ کو تکلیف دی۔ قرآن میں اس کی مذمت میں پوری سورۃ نازل ہوئی۔ یعنی اسے ذات النبی ﷺ سے محبت تھی لیکن پیغام النبی ﷺ کسی صورت قابل قبول نہیں تھا۔ اس سارے تناظر میں ایک لمحے کے لیے پاکستانی معاشرے کو دیکھیں۔ہمارے ہاں پچھلے دس دنوں کو ہی کسوٹی بنا لیں ایک ایسا معاشرہ نظر آئے گا جو نبی کریمﷺ کی ذات میں گستاخی کی صورت میں پوری دنیا سے لڑنے کے لیے تیار نظر آیا۔ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے مسئلہ پہ ہم نے پورے پاکستان کو جام کر کے رکھ دیا۔ جس میں ہر گلی ، چوک اور سڑک میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کئی لوگ جان سے گئے سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ۔ کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچا ۔علما ء کی ایک کال پہ تاجر برادری نے لبیک کہا اور شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال کر دی۔ یہ صورتحال ہر اس لمحے پیدا ہو جاتی ہے جب بھی کسی مسلمان یا غیر مسلم کی جانب سے مبینہ طور پہ نبی کریم ﷺ کی شان میں نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں۔ یہ ایک طرف بہت ہی مثالی حالت ہے کہ امت نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت میں کوئی نازیبا جملہ سننے کو تیار نہیں ہے۔لیکن دوسری طرف یہ عقیدت ذات النبی ﷺ کے دائرے سے نکل کر پیغام نبی ﷺ کو سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہ صورتحال تب بہت ہی نازک ہو جاتی ہے جب امت کا سماجی اور معاشی مفاد ذات النبی ﷺ کی عقیدت سے ٹکرانا شروع کرتا ہے۔اس وقت پاکستان ستانوے فیصد آبادی مسلمان کلمہ گو ہے۔ تمام وسائل پہ بلاشرکت غیرے مسلمان ہی بر اجمان ہیں ۔ مسند اقتدار بھی وہ کسی سے ساتھ بانٹنے کے روادار نہیں ہیں۔لیکن کبھی بھی اسلام کو معاشی مفادات سے ٹکرانے کے بعد ہم نے اپنے مفادات کو قربان نہیں کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا "من غشا فليس منا" ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی حتمی اور یقینی طور پہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں چیز خالص ہے۔ملاوٹ کے ناسور نے ہماری نسلیں تباہ کر دی ہیں لیکن کوئی کلمہ گو نبی کریم ﷺ کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے ۔ جھوٹ بولنےاور وعدہ پورا کرنے کی تاکید بھی اسلام نے اتنی ہی سختی سے کی ہے لیکن ہم نے انفرادی سطح کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پہ جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنے کی روش بھی لمبے عرصے سے اپنا رکھی ہے۔ عدل و انصاف اسلام کا بنیادی ستون ہے ۔ اس کی تاکید نبی کریم ﷺ نے یہ کہہ کر کی کہ" میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوی کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔" لیکن ہمارے ہاں ہر طبقے کے لیے الگ عدالتی پروٹوکول ہے۔ ہماری عدالتیں جھوٹے مقدمات اور مقدمات جھوٹی گواہیوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ ہم نے اس ضمن میں کبھی بھی اپنے گریبان کو اسلام کے سامنے کھول نہیں سکے۔ کیونکہ پیغام النبی ﷺ یہاں ہمارے مالی اور سماجی مفادات سے ٹکرا جاتا ہے۔ ہم رمضان المبارک کی فیوض و برکات کے لیے دسترخوان بھی سجاتے ہیں۔ نماز روزے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ لاکھوں افراد سالانہ حج و عمرے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں ۔ محرم الحرام میں لاکھوں افراد مجالس بھی برپا کرتے ہیں ۔ تبلیغ کے نام پہ اجتماع بھی غیر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے کردار اور ہمارے بازار اسلام کی تعلیمات سے یکسر خالی نطر آتے ہیں۔ ہم دوسروں کا حق ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اشیا ئے خورد ونوش نایاب ہو کر سونے کے بھاو بکنے لگتی ہیں ۔ کرونا جیسی مہلک بیماری میں مددگار ادوایات کو کئی سو گنا مہنگے داموں فروخت کیا۔ہمسایہ ملک بھارت میں کرونا سے بگڑتی صورت حال کے پیش نظرہمارے ہاں ابھی سے آکسیجن کے سلنڈر ذخیرہ کرنا شروع کر دیے گئے ہیں جو کہ مجبور لوگوں کی زندگیوں کی قیمت پہ بیچے جائیں گے۔ لیکن ذات نبی ﷺ سے محبت کے مدعی پھر بھی ہم ہیں ۔ امت ذات النبی ﷺ پہ حملہ کی صورت میں مجاہد کی صورت میں نظر آتی ہے لیکن پیغام النبی ﷺ پہ عمل کے وقت ہم اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیغام نبی کی افادیت نبی کریم ﷺ کی سیرت سے یوں معلوم ہوتی ہے کہ آپ اس پیغام کی خاطر خود پہ کوڑا پھنکوا لیتے، لوگوں سے پتھر کھا لیتے ،جنگوں میں زخموں سے چور ہوئے ،اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قربان ہوتے دیکھا لیکن اس پیغام پہ حرف نہیں آنے دیا۔ ذات ِ نبی ﷺ سے عقیدت اور پیغام نبی ﷺ بغاوت ابولہبی رویہ ہے ۔ من حیث القوم ہم ابولہبیت اختیار کر چکے ہیں۔ اسی لیے بے سکونی ، بے چینی ، بھوک افلاس اور لاقانونیت کی آگ گھر گھر لگی ہوئی ہے۔اب ہماری مذمت میں کوئی قرآن کی سورۃ تو نازل نہیں ہوسکتی لیکن نازل شدہ سورتوں میں ہم اپنا مقام بہتر تلاش کرسکتے۔اور اپنے انجام کو بھی بخوبی دیکھ سکتےہیں۔اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ نبی کریم ﷺ سے عقیدت کو اپنے کردار اور پھر اپنے بازار میں بھی لیکر آئیں تاکہ مخلوق خدا ہمارے شر سے محفوظ رہ سکے۔