Wednesday 8 June 2022

بے شک ہر گھڑی آپ کا ذکر پہلے سے بلند کردیا جاتا ہے

0 comments
آج 8 جون ہے۔ سن عیسوی کے اعتبار سے آج رسالت مآب نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال ہے۔ ہمارے ارد گرد ایک بار پھر غیر مسلم اقوام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بدگمان ہو رہی ہیں۔ ان کی یہ بدگمانی ان کی کم علمی اور تحقیق کے مزاج سے عدم شناسی کے سوا کچھ نہیں اگر وہ ایک مرتبہ بلا تعصب تحقیق سے پیغمبر اسلام کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں تو وہ لازمی اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے۔ ذیل میں چند ایسے جید مستشرقین کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں جنھوں نے اسی راستے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اپنے نقط نظر میں تبدیلی لائی۔ امریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔ تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور لیکچرز میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سرور اعظم تھے۔ 15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ بھارت کے عظیم سیاسی سماجی رہنما مہاتما گاندھی لکھتے ہیں کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتا ہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتا ہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتا ہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔۔۔۔وہ محمد ہیں۔۔۔۔جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“ ابوبکر صدیق (ایم فل پولیٹکل سائنس، ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی لاہور)

Friday 27 May 2022

قبل از اسلا م کا عرب معاشرہ بمقابلہ بعد از اسلام کا ہمارہ معاشرہ

0 comments
ہمارے ہاں پڑھائی جانیوالی تاریخ میں عرب کی تاریخ کو اسلام سے قبل والے زمانے کو زمانہ جاہلیت کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ بلاشبہ عربوں میں ایسی خرابیاں تھیں جنہیں اسلام نے آکر نہ صرف درست کیا بلکہ بعض کو ختم بھی کر دیا۔ ہم نے عربوں کی ان صفات کا کبھی جائزہ نہیں لیا جو اللہ کی طرف سے کسی واضح ہدایت کی عدم موجودگی کے باوجود ان میں موجود تھیں۔ ہم جس زمانے میں میں رہ رہے اگر اسے قبل از اسلام عرب معاشرے سے موازنہ کریں تو ہمیں وہ معاشرہ ہرگز جاہلیت پہ مبنی معاشرہ نظر نہیں آئے گا۔ عرب قبائل مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے ۔ اس کے لیے انہیں کسی وحی کا انتظار نہیں کرنا پڑا ۔ اس کی دو مثالیں جو بڑی آسانی سے میسر آ سکتی ہیں وہ حرب فجار اور حلف الفضول ہیں ۔ جنگ فجار چار جنگوں کا مجموعہ ہے۔ یہ جنگیں چونکہ ان مہینوں میں لڑی گئیں تھیں جن میں لڑائی حرام تھی اس لیے انہیں حرب فجار کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے بیسویں سال عکاظ کے بازار میں قریش وکنانہ اور قیس عیلان کے درمیان ماہ ذی قعدہ میں لڑی گئی ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ براض نامی بنو کنانہ کے ایک شخص نے قیس عیلان کے تین آدمیوں کو قتل کردیا تھا۔ اس کی خبر عکاظ پہنچی تو فریقین بھڑک اٹھے اور لڑ پڑے۔ اس جنگ میں قریش اور کنانہ کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے سن وشرف کی وجہ سے قریش وکنانہ کے نزدیک بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔ پہلے پہر کنانہ پر قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن دوپہر ہوتے ہوتے قیس پر کنانہ کا پلہ بھاری ہوا چاہتا تھا کہ اتنے میں صلح کی آواز اٹھی اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لیے جائیں۔ جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے، چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی۔ جنگ ختم کردی گئی اورجو شر وعداوت پیدا ہوگئی تھی اسے نیست ونابود کر دیا گیا۔ اس جنگ میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے گئے تھے اور اپنے چچاؤں کو تیر تھماتے تھے اس جنگ کے بعد اسی حرمت والے مہینے ذی قعدہ میں حلف الفضول پیش آیا۔ چند قبائل قریش ، یعنی بنی ہاشم ، بنی مُطّلب ، بنی اَسَدَ بن عبد العزیٰ بنی زہرہ بن کلاب اور بنی تَیم بن مُرّہ نے اس کا اہتمام کیا۔ یہ لوگ عبداللہ بن جُدْعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے۔ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا اور آپس میں عہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا۔ خواہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرفِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سُرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر (دور) اسلام میں اس عہد وپیمان کے لیے مجھے بلا یا جاتا تو میں لبیک کہتا۔ اس معاہدے کی روح عصبیت کی تہہ سے اٹھنے والی جاہلی حمیت کے منافی تھی۔ اس معاہدے کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا لیکن اس کا حق روک لیا۔ اس نے حلیف قبائل عبد الدار ، مخزوم ، جمح ، سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے۔ جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔ اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے ؟ ان کی کوشش سے اوپر ذکر کیے ہوئے قبائل جمع ہوگئے ، پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ کرم وسخاوت اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی ۔ایسی سنگین حالت کے باوجوداس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔ اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کردیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَاوِین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے : ترجمہ:''میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا ، نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ ا ور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔ '' ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا ، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ‌ مِن نَّفْعِهِمَا (۲:۲۱۹ ) ''ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ '' وفائے عہد بھی دَورِ جاہلیت کے اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اوّلاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ سموأل کا واقعہ یہ ہے کہ امرؤ القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا ، اس نے انکار کردیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند ہوگیا۔ سموأل کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی مگر سموأل انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔ خودداری وعزتِ نفس اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی، وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی ، شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔ عزائم کی تنفیذاہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔ حلْم وبردباری اور سنجیدگی یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی ، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔ بدوی سادگی یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری وبدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔ اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاق ِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا اِستقصاء مقصود نہیں۔ یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شر وفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے لیکن یہ فی نفسہٖ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔اس کے برعکس ہمارے پاس اسلام کی واضح ہدایت موجود ہے ہم عشق رسول کے سب سے بڑھ کر دعوی دار بھی ہیں اس کے باوجود ہم نے کبھی اجتماعی طور پہ اپنا وزن مظلوم کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔ ہم بخیل بھی ہیں اپنا مال کسی ضرورت مند پہ خرچ کرنے میں نمائش کا پہلو پہلے دیکھتے ہیں ۔ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ہمارے بازاروں کی بدنمائی میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں ۔ غرض کہیں بھی ہم ذاتی حیثیت یا اجتماعی طور پہ خود کو اسلام کے پیرامیٹرز میں طول کر دیکھ لیں شرمساری کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ پھر قبل از اسلام کے عرب کسی وحی کے ذریعے ہدایت کے بغیر زیادہ جاہل تھے یا اللہ کی واضح ہدایت ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ زیادہ جاہل ہے۔ ابو بکر صدیق (ایل ایل بی ، ایم فل پولیٹیکل سائنس پنجاب یونیورسٹی لاہور)

Monday 18 April 2022

غزوہ بدر (عجز اور تکبر کا پہلا معرکہ)

0 comments
17 رمضان غزوہ بدر کی مناسبت سے اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں عجز اور تکبر آپس میں آمنے سامنے ہوئے اور تکبر کی ناک خاک آلود ہوئی۔ یہ جنگ محض تاریخ کے اوراق میں ہی محفوظ نہیں بلکہ خالق کائنات نے اسے آخری منبع رشد و ہدایت میں بھی ایک سے زائد جگہوں پہ بیان کیا ہے۔ قرآن کریم کی سورت آل عمران کی آیات 12 13 اور 123 سے 127 میں، سورت نساء کی آیات 77 اور 78 میں اور سورت انفال کی آیات 1 سے 19 تک اور 36 سے 51 تک نیز آیات 67 سے 71 تک، میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس کو یوم الفرقان کا نام دیا گیا ہے۔ ان آیات کریمہ میں مشرکین کے لاحاصل اقدامات کو سابقہ اقوام ـ بالخصوص آل فرعون ـ سے تشبیہ دی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس جنگ میں کفار و مشرکین کی شرکت شیطان کے مکر و فریب کا نتیجہ تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ ہوا کہ اب جنگ ناگزیر ہے تو آپ (ص) نے لشکر میں موجود انصار اور مہاجرین سے مشورہ طلب کیا۔ مہاجرین میں سے حضرت مقداد نے عرض کیا: ” ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے یہ سن کر آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ مہاجرین کی بجائے انصار سے رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ: ” یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا۔ “ بدر کے مقام پہ پہنچ کر جس جگہ کو پڑاؤ کے لیے منتخب کیا اس کی بابت جنگ کی حکمت عملی کے ماہر صحابی حضرت حباب بن المنذر نے دریافت کیا یا رسول اللہ کیا اس جگہ کو آپ نے وحی الٰہی کے تحت منتخب کیا ہے یا اپنی رائے سے؟ نبی کریم (ص) نے فرمایا اپنی رائے سے۔ جناب حباب (رض) نے کہا یہ جگہ مناسب نہیں۔ اگر ہم قریش کے لشکر کے قریب والے کنوئیں پہ پڑاؤ ڈالیں اور باقی کنوئیں بند کر دیں تو جنگ شروع ہونے سے قبل ہمیں مخالف لشکر پہ برتری حاصل ہو جائے گی کیونکہ مخالف لشکر پانی کی رسد میں تنگی محسوس کرے گا۔ نبی کریم (ص) نے مشورہ قبول کر لیا۔ اس سے یہ نقطہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹیکنیکل مشاورت پہ تقدیس کو ترجیح نہیں دی جانی چاہیے۔ جنگ سے قبل رات بھر نبی کریم (ص) اپنے خیمے میں سجدہ ریز رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے۔ جو دعا تاریخ میں نقل ہوئی ہے اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نبی کریم (ص) کس قدر اپنے مشن کو لیکر متفکر تھے آپ نے اللہ سے دعا کی: "اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی." جنگ شروع ہوئی تو عرب رواج کے مطابق اہل قریش کے تین معزز سرداروں عتبہ ، شیبہ اور ولید نے میدان جنگ میں اپنے مخالف مبازرت طلب کی۔ نبی کریم (ص) نے مبازرت قبول کی اور ان کے مقابلے پہ اپنے سب سے عزیر چچا زاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ، اپنے دوسرے چچا زاد عبیدہ بن حارث اور اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب کو بھیجتے ہوئے کمال کا اصول بیان فرما دیا کہ تحریک اس وقت کامیاب ہوتی جب مشکل ترین وقت میں اپنے سمیت اپنے پیاروں کو سب سے آگے کیا جائے ناکہ کامیاب ہونے کے بعد۔ جو لیڈرز خود کو اور اپنے بچوں کو محفوظ پناہ گاہوں میں رکھ کر پیروکاروں سے قربانی کا تقاضا کریں ان کے مقاصد اخلاص سے خالی ہوتے ہیں۔
جنگ نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ 14 مسلمانوں کے مقابلے میں 70 کفار واصل جہنم ہوئے جن میں سے 38 کو صرف حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے قتل کیا۔۔ قریب قریب سبھی بڑے بڑے سردار جن میں عتبہ ، شیبہ، ولید، امیہ بن خلف ابوجہل جیسے نبی کریم (ص) نے اپنی امت کا فرعون قرار دیا اور اس جنگ کا اصل محرک وہ ہی تھا اسی پہلی جنگ میں مارے گئے۔ یہ جنگ نئے دینی رشتوں کے قیام اور پرانے خونی رشتوں کو منہدم کرنے پہ مہر ثبت کرتی ہے کیونکہ اس جنگ میں بھائی اپنے اپنے بھائی سے برسرِ پیکار تھا۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے ہاتھوں آپ کے سگے ماموں واصل جہنم ہوئے۔ 70 قیدیوں کو مدینہ لایا گیا۔ ان کے مستقبل پہ ایک مرتبہ پھر مشاورت کے لیے صحابہ کا اجلاس طلب کیا گیا۔ حضرت سعد بن عبادہ نے مشرکین مکہ کو جلا دینے کی تجویز دی اسی طرح حضرت عمر نے کہا کہ ہر مہاجر اپنے مشرک عزیز کو قتل کردے تاکہ اہل مکہ واضح پیغام موصول کر سکیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کے برعکس نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ انہیں فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ اپنے مشورے کی دلیل یہ بیان کی کہ ایک تو اس سے مسلمانوں کی موجودہ مالی مشکلات میں کمی واقع ہوگی دوسرا غالب امکان ہے کہ ان میں سے کچھ ایمان لے آئیں اور اسلام کی طاقت کا باعث بنیں۔ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رائے حضرت ابوبکر کے حق میں ڈال دی۔ ہتھیار ہیں اوزار ہیں افواج ہیں لیکن وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا