Wednesday 13 June 2018

عام آدمی کدھر جائیں گے؟

0 comments
دیلی میں یونائٹڈ صوبے میں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ یہ جماعت بہت کم عرصے میں انڈیا کی سیاست میں مقام بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔انہوں نے بڑے مختلف مدعوں پر سیاست کرکے انڈیا کے نوجوان ذہن کو متاثر کیاہے۔6جون کوعام آدمی پارٹی کی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ماحولیات کے وزیر عمران حسین نے ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کے پیش نظر اپنی نئی پالیسی پیش کی ۔ جس کی کابینہ نے منظوری دی۔ جس کے تحت دہلی میں چھ مختلف مقامات پہ جنگلات لگائیں جائیں گے اور ولائیتی کیکر جو کہ مقامی آب و ہوا سے مطابقت نہیں رکھتا اس کی جگہ بھی نئے درخت لگائیں جائیں گے۔حکومت نئی نسل کے لیے قابل رہائش انڈیا کے وژن پہ کا کر رہی ہے؟ پنجاب کے میدانی علاقوں میں مئی کے مہنے میں درجہ حرارت 46ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔جون 51 یا 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک جانے کے امکان ہیں ۔ وہ درجہ حرارت جو کبھی محض جیکب آباد اور سبی کا ہوا کرتا تھا اب بیشتر شہروں کا ہو رہا ہے۔حکومتیں اس ضمن میں خاموش ہیں بلکہ اس صورت حال کو اور بڑھاوا دے رہی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلے دس سالوں میں سٹرکوں کو وسیع کرنے یا نئی سڑکوں کی تیاری میں 30ہزار درخت محض لاہور ہی سے کاٹے گئے ہیں ۔بجری اور پتھر کرش کرنے والے یونٹ لاہور یا اس کے مضافات میں قائم کر کے اس چیز میں اور سنجیدگی پیدا کی گئی ہے۔ گرین اکانومی کی اصطلاح دنیا بھر میں استعمال کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کے بڑے ممالک ماحولیات پہ سمٹ کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کسی کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ پنجاب ناقابل رہائش خطہ بنتا جا رہا ہے ۔ درجہ حرارت میں اضافہ کنٹرول انسانی بساط میں ہے لیکن اس پر حکومتی رٹ بہت ضروری ہے۔ حکومت بے شمار ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس سے محض پانچ سالوں میں پاکستان کے جنگلا ت کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت لوڈ شیڈنگ کے جن کو کسی طور بھی قابو میں کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کو ماحولیات پہ ایمرجنسی پلس لگا کر کام کرنا ہو گا تا کہ لوگو ں کے لیے ماحول ساز گار رہے ۔ اس حوالے سے کچھ تجاویز درج ذیل ہیں۔ 1. ملک میں لگے ہوئے تمام درختوں کو سرکاری تحویل میں لے کر ان کی گنتی کی جائے ۔ 2. پاکستان کے پاس وراثت میں ملا ہوا دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے۔نہری نظام پورے پنجاب میں بکھرا ہوا ہے ۔ اگر ہم 10 فٹ کے وقفے پر نہروں کے دونوں کناروں پر درخت لگا دیں تو اس سے موسمی اثرات کے ساتھ ساتھ زمینی کٹاو کا عمل بھی رک جائے گا۔ 3. نہروں کی طرح دریاوں کے کناروں کو بھی اس ضمن میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 4. نیشنل ہائی وئے کے پاس ایک طویل رقبہ موجود ہے۔اطراف میں موجود 220فٹ تک حکومتی زمین پر حکومت سڑکوں کے دنوں جانب درخت لگو ا سکتی ہے۔ 5. پاکستان کے 17 فیصد رقبہ پر پاکستان ریلوے کا کنٹرول ہے۔ ریلوے ٹریک کے دونو ں جانب بھی درخت لگوائے جا سکتے ہیں ، 6. پاکستان کے ذرعی رقبہ میں فی ایکٹر درختوں کی تعداد مختص کی جائے اور مالکانہ حقوق درختوں کے ساتھ مختص کر دئے جائیں ۔ 7. شہری علاقوں میں جہاں کچی زمین کی کمی ہے حکومت مختلف فاراِسٹ زون بنائے۔جہاں پہ ایسے درخت لگائے جائیں جو دیر پا پتہ ساتھ رکھتے ہوں ۔ 8. شہروں میں گھر کے اندر اسی بیلوں کو فروغ دیا جائے جن کا پتہ چوڑا ہو۔ 9. واپڈا کے حکام جسطر ح عوام سے ٹیلی وژن کی فیس وصول کرتے ہیں اسی طرح عوام کو درخت لگانے پر بجلی کے بلوں میں انسینٹیو دیا جائے۔ 10. زرعی رقبہ کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ جن لوگوں کو زمیں کاشتکاری کے نقظہ نظر سے الاٹ ہوئی ہے انہیں اس بیچ کر کالونیاں بنانے سے روک دیا جائے۔ 11. پاکستان موٹر وئے کو دونوں جانب درخت لگائے گئے ہیں مگر بہت کم۔ سفیدے کے درخت کو کسی مناسب درخت سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ان زمینوں کے کے لیے مناسب ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح بہت بلند ہو۔جیسے سیم زدہ زمین۔ اس ضمن میں موٹر وئے کے دونوں جانب باغات لگائے جا سکتے ہیں جیسے محکمہ ٹھیکے پہ دے کر ریونیو بھی کما سکتا ہے اور ملکی زر مبادلے میں اضافے کا باعث بھی بنے گا۔ 12. مختلف این ۔ جی ۔اوز کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 13. درخت کاٹنا ناقابل معافی جرم ہو۔ جس پہ بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ 14. سکھ چین کا درخت پنجاب کے میدانی علاقوں میں بہت مفید ہے اس کا پتہ سال میں گیا را ماہ تک نہ گرتا ہے اور نہ زرد ہوتا ہے۔ حکومتیں عوام کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اگر حکومت نے ماحولیات پہ توجہ نہ دی تو پاکستان میں درجہ حرارت اس حد تک بڑھ جانے کا امکان ہے کہ یہاں رہنا شاید ممکن نہ ہو۔ عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے میڈیا کو بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔انوائرمینٹل ٹرائبیونل کی تحصیل کی سطح پر بنچز قائم کیے جائیں ۔ فورسٹ ڈیپارٹمنٹ میں پولیس کو زیادہ باختیار بنا کر اسے اکاونٹ ایبل بھی بنایا جاے۔ہمیں من حیث القوم اس بارے میں شدید متفکر ہونے کی ضرورت ہے۔ صنعتی زونز میں صنعتی قوانین کا اطلاق یقینی بنایا جائے۔کسی کو روزگار کی آڑ میں کسی کی زندگی سے کھیلنے کا موقعہ دینا چاہیے۔اشرافیہ کے پاس دنیا بھر میں دیگر آپشنز موجود ہیں لیکن اگر ہم نے عام آدمی پارٹی کے نقطہ نظر سے نہ پلاننگ کی تو اور اپنے طرز عمل میں بہتری لانے کی سعی نہ کی توعام آدمی کدھر جائیں گے۔

Saturday 9 June 2018

'دی کوئسٹ کانٹنیوز، دی لاسٹ ہیرٹیج

0 comments
امردیپ سنگھ انڈین نژاد سکھ ہیں جو سنگاپور میں رہتے ہیں ۔یہ 'دی کوئسٹ کانٹنیوز، دی لاسٹ ہیرٹیج' دی سکھ لیگیسی ان پاکستان جیسی کمال کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔کچھ دن پہلے انکی کتاب دی لاسٹ ہیرٹیج پڑھنے کا موقعہ ملا۔ کتاب ایک فلم کی مانند ہے جو اپنے ریڈر کا انٹرسٹ کسی لمحے کھونے نہیں دیتی۔ ان کے والد کا پچپن مظفرباد میں گزرا اور 1947 کے بعد وہ اترپردیش میں جا کر بس گئے۔ تقسیم کے وقت مظفرآباد میں ایک بڑی سکھ آبادی موجود تھی جو دیگر لوگوں کی طرح انڈیا منتقل ہوگئی اور بہت سے لوگ مارے بھی گئےان کے والد گورکھ پور میں آباد ہوئے جہاں پنجابی زبان بولی جاتی تھی نہ اپنی ثقافت کے لوگ تھے اور اکثر وہ مظفرآباد کی ٹھنڈی وادیوں کو یاد کیا کرتے تھے۔‘امردیپ سنگھ کی پیدائش تو انڈیا میں ہوئی اور انجینیئرنگ کی تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس خطے سے پیار رہا ہے اور تقریباً 25 سال سے وہ اس خطے کی تاریخ و ثقافت کا مطالعہ کر رہے ہیں۔25 سال کی ملازمت کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے پاکستان جا کر اپنے والد اور والدہ کی جائے پیدائش دیکھنی چاہیے کیونکہ وہ خود تو رہے نہیں لیکن ان کی باتیں یاد تھیں۔ امردیپ سنگھ کہتے ہیں کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ اگر آپ انڈیا یا پاکستان میں پیدا ہوئے ہوں لیکن آپ کی شہریت کسی دوسرے ملک کی ہو تب بھی حکام کی جانب سے آپ کے ساتھ انڈین یا پاکستانی کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے۔’یہ میری خوش قسمتی ہے کہ سنہ 2014 میں اور اس بار بھی مجھے پورے پاکستان کا ویزا دیا گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’میں پاکستان میں اپنے والدین کی جائے پیدائش، ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب کے علاوہ بھی بہت کچھ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘وہ کہتے ہیں: 'کسی بھی معاشرے کا ورثہ مذاہب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ فنون لطیفہ، ثقافت، مذہبی ہم آہنگی سب اسی کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہی میرا سوال تھا اور اسی کے جواب کی تلاش میں میں پاکستان آیا۔'امردیپ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں جہاں بھی گئے انھیں اتنا پیار ملا کہ وہ بیان نہیں کرسکتے۔ 'قدم بڑھتے گئے اور کڑیوں سے کڑیاں ملتی گئیں۔'ان کا کہنا تھا وہ پاکستان میں 36 سے زائد مقامات کا سفر کر چکے ہیں جہاں انھوں نے سکھ ورثے کو ڈاکومنٹ کیا اور اس بار وہ مزید تاریخی مقامات کھوجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ امردیپ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں بے شمار تاریخی مقامات ہیں جنھیں محفوظ کرنے پر توجہ دینا چاہیے لیکن ضلع منڈی بہاؤالدین میں واقع مانگٹ کا شکستہ حال گردوارہ شاندار فنِ تعمیر کا شکار ہے اور انھوں نے پاکستانی حکام کو بھی اس کی جانب توجہ دلائی ہے کہ اس کو محفوظ کیا جائے۔مانگٹ کے گردوارے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ تاریخی ورثے کو محفوظ کرکے سیاحتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک سال قبل پاکستان آئے اور انھوں نے 90 شہروں، قصبوں اور دیہات کا دورہ کیا، دو ماہ کے مختصر قیام کے دوران انھوں نے ان شہروں میں سکھ ورثے کی عکس بندی کی اور اس سے وابستہ روایات اور تاریخ کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔سکھ ثقافت اور ورثے کے حوالے سے یہ ان کے کام کا تسلسل تھا، اس سے قبل ان کی پاکستان میں سکھ ورثے سے متعلق کتاب 'دی سکھ لیگسی ان پاکستان ' کے نام سے کتاب شائع ہوئی تھی۔اس میں 36 ایسے ہی مقامات کا ذکر کیا ہے ۔آپ کتاب پڑھنا شروع کریں تو آپ مصنف کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں ، وہ جہاں جہاں جاتے ہیں وہاں لوگوں سے ملتے ہیں اور ان کی کہانی تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کرتے جاتے ہیں۔ 51 سالہ امردیپ سنگھ کی حالیہ کتاب 'دی کوئسٹ کانٹنیوز، دی لاسٹ ہیرٹیج' نہ صرف پاکستان میں سکھ ورثے کا تعارف پیش کرتی ہے بلکہ یہاں بسنے والے ایسے مذہبی اقلیتی گروہوں سے بھی متعارف کرواتی ہے جو تقسیم ہند کے بعد تاحال اپنی شناخت قائم رکھے ہوئے ہیں۔اس کتاب کو اگر دریائے سندھ کے سنگ سفر کی داستان کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا، کیونکہ اس میں وہ سکردو سے لے کر کراچی تک اس خطے کے ثقافتی ورثے اور تاریخی واقعات و مقامات کی داستانیں بھی بیان کرتے ہیں۔سکھ دور میں کشمیر کے شمال مغربی علاقوں میں محاذ آرائی اور پھر قبائلی علاقہ جات میں سکھوں کی باقیات کے علاوہ بلوچستان اور سندھ میں سکھوں کے روحانی گرو بابا گرو نانک کے عقیدت مندوں کی کہانیاں اس کتاب کا حصہ ہیں۔امردیپ سنگھ نے بتایا کہ مذہب کے نام پر لوگوں کی تقسیم ہوئی جبکہ وہ لوگوں کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں جو بابا گرو نانک سمیت اس خطے کے صوفیا اور گروؤں کا پیغام تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان و ہندوستان کے دیگر علاقوں کے برعکس دریائے سندھ کے ارد گرد بسنے والی قوموں کی ایک منفرد شناخت رہی ہے۔امردیپ سنگھ کا دعویٰ ہے کہ 'اس خطے میں بسنے والوں کا خدا کی واحدانیت پر یقین رہا ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔' وہ کہتے ہیں کہ انڈیا میں سکھ تاریخ نہیں پڑھائی جاتی کیونکہ اسے پاکستان کی تاریخ سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں سکھ تاریخ کو نظرانداز کیا جاتا ہے کیونکہ اسے غیراسلامی تاریخ سمجھا جاتا ہے۔’ہم نے پاکستان میں سکھ ورثے کو کھو دیا اور انڈیا میں جدیدیت کے نام پر اسے خود برباد کر دیا۔ تاریخی ورثے اور روایات سے جڑی ایسی ہی چند کہانیاں پیش ہیں جن کا ذکر امردیپ سنگھ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ امردیپ سنگھ صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک میں واقع کوٹ فتح خان کے مقام پر واقع ایک قدیم گردوارہ بابا تھان سنگھ کی کہانی بیان کی گئی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ اس گردوارے کو دیکھنے گئے تو ان کی ملاقات یہاں ایک مقامی بزرگ سے ہوئی۔ انھوں نے گردوارے میں بکھرے ہوئے سامان کو جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جو کوئی بھی یہاں سے کچھ اٹھا کر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اسے کسی نہ کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘انھوں نے ایک دروازے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ یہ دروازہ لے گئے تھے لیکن بعد میں انھیں یہیں واپس رکھنا پڑا۔‘امردیپ سنگھ بتاتے ہیں کہ انھوں نے دیواروں پر کندہ گرمکھی تحریریں پڑھیں لیکن ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ گرمکھی کے نیچھے اردو زبان میں لکھی تحریروں کو سیاہ رنگ سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔اس بزرگ سے انھوں نے اس بارے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ ’مقامی لوگ یہاں جمعرات کو دیے جلاتے ہیں اور اردو میں یہاں بابا تھان سنگھ لکھا ہوا تھا جنھیں اب لوگ سلطان تھان سنگھ سمجھتے ہیں۔‘ مصنف نے کتاب میں ان ثقافتوں اور زبانوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھیں مذہبی حدوں میں قید کر دیا گیا ہے۔امردیپ سنگھ لکھتے ہیں پاکستان کے علاقے ہزارہ ڈویژن اور وادیِ سوات میں بسنے والے سکھوں کے نام اور ظاہری حلیہ پنجابی سکھوں سے مختلف ہیں۔ایسا ہی مسئلہ سندھ میں بسنے والے نانک پنتھی سکھوں کا ہے جو نانک کے عیقدت مند سمجھے جاتے ہیں لیکن سکھ مذہب میں ان کی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔اس بارے میں امردیپ سنگھ کا کہنا ہے کہ تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں بسنے والے تقریباً تمام سکھ انڈیا منتقل ہو گئے لیکن نانک کو ماننے والے وادیِ سوات، ہزارہ اور اندرون سنگھ میں بسنے والے افراد یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ان کے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ان علاقوں میں فسادات نہیں ہوئے اور انھوں نے یہیں قیام کرنا بہتر سمجھا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ افراد گرو نانک کے عقیدت مند ہیں لیکن ان کی ظاہری شباہت پنجاب کے سکھوں سے مختلف ہے۔ امردیپ سنگھ نے خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں سکھ دور کے 27 قلعوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں کئی قلعوں کے نام و نشان بھی ڈھونڈنا مشکل ہے لیکن کئی ایک بہتر حالت میں ہیں جن میں اٹک، اکوڑہ خٹک، شب قدر، بالا حصار اور جمرود قلعہ شامل ہیں۔امردیپ سنگھ شب قدر قلعے میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے دو دروازوں کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں سنہ 1840 میں سکھ دورحکومت میں مہاراجہ شیر سنگھ نے یہاں کا دورہ کیا تو کچھ افغان جنگجو قلعے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم انھیں پسپا کر دیا گیا۔مصنف کے مطابق اس کے اگلے روز جب تفتیش کی گئی تو سکھ فوج کے ایک اطالوی جنرل جین بیپٹائسٹ وینٹورا اس قلعے کے کمانڈر تھے اور دفاع کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی تاہم مہاراجہ نے دفاع میں ناکامی کا ذمہ دار قلعے کے دروازے کو قرار دیتے ہوئے اسے 100 سال قید کی سزا سنائی۔سنہ 1940 میں یہ سزا پوری ہو گئی لیکن آج بھی یہ دروازے ایک مینار کے ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں لاہوریے کا قصہ انتہائی دلچسپ ہے۔ امردیپ لکھتے ہیں کہ سنہ 1814 میں انڈیا کا شہر دہرادون نیپالی سلطنت کا حصہ تھا۔ جب انگریز فوج نے اس علاقے میں نیپالی سلطنت کوشکست دی تو نیپالی کمانڈر بلبدھر کنور بھاگ کے لاہور آ گئے جہاں انھوں نے رنجیت سنگھ کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔مصنف کے مطابق رنجیت سنگھ کے کہنے پر بلبدھر کنور نے سکھ فوج میں گورکھا رجمنٹ کی بنیاد رکھی۔ نیپال میں بلندھر کنور کو ’لاہوریے‘ کا نام دیا گیا لیکن اہم پہلو یہ بھی ہے نیپال میں آج بھی غیرملکی فوج میں بھرتی ہونے والے کو ’لاہوریے‘ کہا جاتا ہے۔مصنف بیان کرتے ہیں کہ سنہ 1824 میں دریائے کابل کے کنارے ضلع نوشہرہ کے علاقے پیر سبق میں درانیوں نے اعظم خان برکزئی کی قیادت میں سکھوں سے جنگ لڑی جس میں بلبدھر کنور اور ایک سکھ کمانڈر اکالی پھولا سنگھ مارے گئے۔مصنف اس امر پر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ پیر سبق میں اکالی پھولا سنگھ کی سمادھی کے آثار آج بھی باقی ہیں لیکن وہ شخص جس نے انڈین فوج میں ایک اہم رجمنٹ کی بنیاد رکھی اس کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور اس کی سمادھی یا قبر کے کوئی اثار باقی نہیں ملتے۔ تاہم ’لاہوریے‘ کا لقب آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع بھمبر میں علی بیگ کے مقام پر واقع گردوارہ سکھ دور کے فن تعمیر کی اعلیٰ مثال ہے۔امردیپ سنگھ بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت جب مسئلہ کشمیر پیدا ہوا تو اس گردوارے میں سینکڑوں ہندو اور سکھ قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔وہ بتاتے ہیں یہیں ان کی ملاقات ایک 92 سالہ بزرگ راج محمد سے ہوئی جنھوں نے بتایا کہ اس گردوارے کے ساتھ ایک سکول بھی تھا، یہیں انھوں نے گرمکھی کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہ آج بھی گرمکھی جانتے ہیں۔امردیپ سنگھ نے بتایا کہ جب وہ واپس لوٹنے لگے تو راج محمد نے ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ انڈیا جائیں گے؟‘ جس کے جواب میں انھوں نے اثبات میں سر ہلایا تو تاج محمد نے کہا کہ ’ہندوؤں اور سکھوں سے کہنا کہ وہ واپس لوٹ آئیں، مجھے معلوم ہے ان کے گھر کون کون سے تھے، ہم انھیں واپس کر دیں گے۔‘ مجھے شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ راج محمد کے کھلے دل کا یہ ہی وہ ورثہ ہے جسے ہوس نے ہم سے چھین لیا ہے۔ ابو بکر صدیق (ایم فل پولیٹیکل سائنس)

Sunday 6 May 2018

غلاموں کی بصیرت پہ کیا بھروسہ کرنا

0 comments
تعصب ایک ایسا چشمہ ہے جو کائنات کے تمام رنگوں کو معدوم کر دیتا ہے۔ انسان ہمیشہ وہ سننا چاہتے ہیں ۔ جو وہ سوچتے ہیں ۔اپنی سوچ کو وہ الہامی سمجھتے ہیں ۔اسی کشمکش میں وہ نفرت کو اپنا پیش امام بنا لیتے ہیں ۔ نفرت وہ پیمانہ ہے جس میں کبھی بھی انصاف سے نہیں تولا جا سکتا۔ ہم اکثر مختلف چیزوں کو اس لیے نا پسند کرتے ہیں کہ ان کا ظہور ان لوگوں میں ہو جاتا ہے جن کو ہم نا پسند کرتے ہیں ۔ ہم یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ ماضی میں ان معاملات میں ہمارا رویہ کیا رہا ہے۔ یہی حال لبرل ازم کا ہے ۔ لبرل ازم اور اسلام کو مد مقابل کھڑا کرنے کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں ان سے قطع نظر ہمیں ایک مرتبہ نفس ِ مسئلہ کو ضرور سمجھ لینا چاہیے۔ ہم نے لبرل ازم کو محض انگریزی زبان کا لفظ ہونے کی بنا پر کفر پر مبنی نظام سے تعبیر کیا اور اپنے محراب و منبر سے اپنی نسلوں کو اس سے متنفر کیا۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ ایک لمحہ رک کر یہ ہی پوچھ لیا جائے کہ آخر لبرل ازم ہے کیا؟ کہیں لبرل ازم کےمتعلق ہماری معلومات غلط فہمی پر مبنی تو نہیں؟ ہمارے ہاں چونکہ علما ء کے فرمان اکثر تابع وحی ِ الہی ہی ہو تے ہیں اس لیے ان کی معلومات کو غلط فہمی پر مبنی قرار دینا بذات خود توہین آمیز جملہ ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے۔ جو کہ زندگی کی تمام جہتوں میں مکمل رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔اخلاقیات ، عبادات، سیاست ، معیشت ، معاشرت اور اقتصادیات یہ سب دین اسلام کے مختلف پہلو ہیں۔ جیسے لباس انسان کی تمدنی ضرورت ہے۔ اس پر دین کی رہنمائی موجودہے۔ ذکوۃ اور مداربہ جیسے احکامات انسان کی اقتصادی ضروریات کے پیش نظر دین اسلام کی ہدایات موجود ہیں ۔ لبرل ازم کو یورپ نے ایک عرصہ بعد آج کی شکل و صورت سے مذین کیا ہے۔اس کے ذریعے مغربی اقوم نے معروثی بادشاہت، مذہب کی ریاستی امور میں بے جا مداخلت، بادشاہوں کے خدائی اختیارات اور روایتی تنگ نظری سے جان چھڑائی اور ان کی جگہ نمائندہ جمہوریت کے نظام ، قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا، عدلیہ کا انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا، شخصی آزادی ، انسانی مساوات، تنظیم سازی کی آزادی ، برداشت اور باہمی عزت کے زریں اصولوں کو جگہ دی۔انہوں نے اس کے ساتھ ہی تجارتی پالیسیوں میں تبدیلی کرتے ہوئے تجارت پہ امراء کی گرفت کو کمزور کر کے فری ٹریڈ مارکیٹ کے تصور کو جنم دیا۔ برطانیہ میں لبرل ازم مضبوط جمہوری اقدار کے فروغ جبکہ فرانسیسی لبرل ازم اتھاریٹیرینزم کے خاتمے کا باعث بنا۔ یورپ کے گلوریس ریولیوشن (1688) امریکی انقلاب (1776) فرانسیسی انقلاب ( 1789) میں لبرل ازم نے بادشاہت کے ظالمانہ اختیارات کو ختم کر دیا۔ سوشل لبرل ازم نے یورپ میں فلاحی ریاست کے تصور کو عملی صورت دی۔ لبر ل ازم اسلام جتنا ہمہ گیر اور وسیع تصور نہیں ہے۔ لبرل ازم ایک سیاسی اور معاشی تصور ہے۔ یہ ایک پیکج ہے مختلف نظریات کا ۔ اگر ہم نے لبرل ازم کو اسلام ہی کی نظر سے دیکھ کر جج کرنا ہے تو ہمیں اسلام کی ان نظریات کے متعلق رائے معلوم کر لینی چاہیے۔ اسلام قیامت تک کے لیے دائمی راہنمائی کا مستند ترین ذریعہ ہے وہ ہر گز خاموشی اختیار نہیں کریگا۔لبرل ازم نے یورپ کے تاریک ماضی کو شاندار حال میں تبدیل کر دیا۔ لبرل ازم کے دائرہ میں جو نظریات پروان چڑھے ان میں مساوات ، قانون کی حکمرانی ، جمہوری اقدار کی پرورش، فری مارکیٹس کا تصور، مذہبی رہنماوں کی دسترس سے ریاستی امور کی آزادی اور مذہبی رواداری اہم ہیں۔ لبر ل ازم اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ لہذا لبرل ازم کو اسلام کے نقطہ نظر سے سمجھنے کے لیے ہماری اسلام کے سیاسی اور معاشی تصورات سے اگاہی لازمی ہے۔ لبرل ازم کئی معروف مغربی مفکرین کے ذہن کی پیداوار ہے ۔ جن میں جان لا ک سب سے اہم ہیں ۔ انھیں جدید لبرل ازم کا بانی کہا جاتا ہے۔جان لا ک کے نذدیک حکومت کو عوام کی نجی زندگی میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ چرچ اور ریاست کے امور کو علیحدہ علیحدہ کرنے کا مدعی تھا۔ انھوں نے رابرٹ فلیمر کے اس نظریے کو کہ بادشاہ خدا کا نائب ہے اور لا متناہی اختیارات کا حامل ہے پہ شدید تنقید کی۔ انھوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام Letter concerning tolerance تھا اس میں تین دلائل دیے۔ 1۔ریاست کو بلخصوص اور عوام کو بلعموم مذاہب کی سچائی پہ بطور جج بن کر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے 2۔چاہے کسی ایک مذہب کو ہی درست جان کر بھی نافذ کر دیا جائے تب بھی ایسا کرنا درست نہیں ۔ کیونکہ تشدد کو آلے کے طور پہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ 3۔مذہبی یکسانیت سے معاشرے میں نظم نسق کے بے شمار مسائل پیدا ہو ں گے۔ تھامس ہابز نے اپنے سوشل کنٹریکٹ میں حکومت کی حدود کا تعین کرکے لبرل ازم کے فلسفے کو آگے بڑھایا وہیں پہ جان گرے نے قانون کی نظر میں برابری کے فلسفے کو ریاست کی بنیاد قرار دیا۔ کانٹ جیسے عظیم مفکر نے انسانی ترقی کے لیے مختلف عوامل کا ذکر کر کے اسی سلسلے کو تکمیل تک پہنچایا۔ امریکہ میں جان ملٹن آزادی اظہار جیمز میڈیسن اور مانٹیسکو اختیارات کی علیحدگی اور اداروں کی مظبوطی کے حامی مفکرین کے طور پہ ابھرے ۔ وہیں پہ جے اسٹورٹ مل اور ایڈم سمتھ نے حکومتی عدم مداخلت کو انسانی زندگی کی پرورش کی راہ میں رکاوٹ سے تعبیر کیا۔ فریڈک ہائک فری مارکیٹ کی تصور کا بانی تھا جبکہ تھامس گرین نے لبرٹی کو اپنی نظریاتی اساس بنایا۔ اسلا م اور لبرل ازم کا موازنہ کرنے سے پہلے ہمیں اسلام کی حدود کا از سر نو مطالعہ کرنا چاہیے کہ  کیا اسلام انسانی مساوات کا قائل نہیں ہے؟  کیا جمہوریت کی اسلام میں کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟  کیا ریاست تھیو کریسی کی متحمل ہو سکتی ہے؟  کیا اسلام کی تاریخ میں ریاست غیر مسلموں کے لیے کوئی علیحدہ نقطہ نظر رکھتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات سے ہی لبر ل ازم کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح ہو پائے گا۔ قرآن پاک اسلامی احکامات کی بنیاد ہے جس کی تشریح احادیث مبارکہ کرتی ہیں ۔ جن تصورات کو مغرب نے لبرل ازم کے لبادے میں اپنے ہاں جگہ دی اور عروج پایا یہ سب نظریات ہمارے عروج کے دنوں میں ہمارے نظام کا خاصہ تھے۔ اب اگر ہم نے لبرل ازم اور اسلام کو ایک دوسرے سے کمپیر کرنا ہے تو ہمیں صرف اور صرف لبرل ازم کے اس پیکیج میں موجود خصوصیات کو ہی اسلام کے ان کے بارے میں نقطہ نظر سے کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ اسلا م ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اس نے سیاسی اور معاشی زندگی کے لیے مکمل روڈ میپ دیا ہے۔ اسلام ہر گز ان تصورات کے بارے میں خاموش نہیں ہے۔ اسلام نے عدل کو معاشرتی ، معاشی اور عائلی زندگی میں لازمی شرط قرار دیا ہے ۔ جس پہ قرآن مجید کی کثیر آیات دلالت کرتی ہیں ۔ اسی طر ح نبی کریم ﷺکا یہ فرمان کہ" میری بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرتی تو میں اس کاہاتھ کٹوا دیتا" قانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے کی عالمگیر مثال ہے۔ عربی کو عجمی پر، اور گورے کو کالے پہ کسی قسم کی برتری نہ دینے کا فرمان بھی پیغمبر اسلام ہی کا ہے ۔ جس نے اسلام کے تصورات مساوات کو جنم دیا۔ شخصی آزادی کی ضمن میں اقوام متحدہ کے ماتھے کا جھومر بننے والا زریں قول کہ " ان کی ماوں نے تو انہیں آزاد جنا تھا تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا" خلیفہ اسلام حضرت عمر کی زبان سے نکلا جب عمرو بن العاص کے بیٹےنے ایک مصری کو مارا۔اسی طرح اگر جمہوریت کی روح کو دیکھا جائے تو اس کی بنیاد مشورے پہ رکھی گئی ہے۔ معاملات میں مشورے کے عمل دخل کو سب سے خود اللہ پاک نے سورۃ الشعراء میں لازمی قرار دیا۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ اکرام کی زندگیا ں برداشت ایثا ر اور اخوت کا نمونہ تھیں ۔ جمہوریت کے موجودہ نظام کا سب سے زیادہ استعمال حکمران کے چناو میں ہے ۔ جبکہ خلفاء راشدین کے چناو بھی مشورے اور جمہوریت کی بہترین مثالیں ہیں ۔ اب اگر لبرل ازم کے تمام نظریات کو از سر نو دیکھا جائے تو یہ تمام نظریات اسلام کی سند کے ساتھ موجود ہیں ۔ اگر اسلام ان تما م نظریات کو اپنے معاشروں میں لازمی جز قرار دیتاہے۔ اب لبرل ازم کی مخالفت محض اس کے انگریزی حروف تہجی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لبرل ازم کو اس بات کی وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس سے معاشرے میں علیحدہ خاندانی نظام ، بے حیائی، عریانی، اور فحاشی نے جنم لیا ہے۔ اس سے معاشرے میں نکاح کے بغیر بچوں کے بوجھ کو ریاست پہ ڈال دیا ہے۔ معاشرے میں زنا نے کھلے عام جنم لیا ہے۔ اب ذرا دوبارا سے لبرل ازم کے پیکج کو ملاحظہ کریں۔ جتنے بھی اعتراضی نقطے میں ان میں سے کسی ایک کا بھی معیشت اور سیاست سے تعلق نہیں ہے۔ یہ سب کے سب سماجی اور معاشرتی پہلوہیں ۔ اب ان کے لیے اسلام کے سیاسی اور معاشی پہلو سے نہیں بلکہ اسلام کی سماجی اور معاشرتی اقدار کوان سے موازنے کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں ایک بات انتہائی غور طلب ہے کہ مغربی معاشرے نے آزادی کی جس فکر پروان چڑھایا اس کی رکھوالی قانون کے ترازو تلے کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ آزادی رائے کے ساتھ ساتھ افراد کی عزت کو محفوظ کرنے والے قوانین اور بھی سخت کر دیے ۔جہاں پر افراد کو جسمانی آزادی دی گئی وہاں پر افرادکی مرضی کو قانون کا درجہ دے دیا گیا۔ کسی کو یہ جرات حاصل نہیں کہ کسی کو چھو بھی لے اور قانون مظلوم کی مدد کو نہ آئے۔ بے حیائی اور فحاشی کا لبرل ازم کے کسی بھی نظریے سے کوئی دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ یہ لبرل ازم پہ ویسی ہی ایک تہمت ہے جیسی دہشت گردی اسلام پہ۔ لبرل کون ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے اس کی تعریف درج ذیل ہے۔ “Willing to respect or accept behavior or opinions different from one’s own” ایک دوسری تعریف کے مطابق: “Concerned with broadening general knowledge and experience rather than technical or professional training.” تیسری تعریف ۔۔۔۔ Favorable to or respectful of individual rights and freedom.” کوئی ذی شعور انسان ان تعریفوں سے بھلا کیسے انکار کر سکتا ہے؟ ان میں کوئی بات بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔جیسے قرآن اور حدیث کی تفسیر اور تشریح کا مستند فورم مسلمان علماء کی ریسرچ ہے اسی طرح مغربی نظریات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مغربی جیورسٹس کو ہی موقع دیں ۔ اگر لبرل ازم کو مولانا مودودی کی تحریروں اور خادم حسین کی تقریروں سے سمجھنا چاہا تو اس سے نفس مسئلہ ہمشہ تشنہ طلب ہی رہے گا۔ یوٹوپیا کے مرض میں مبتلا قوم نے کبھی آزاد سوچ کو پنپنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔ ہم آج بھی اسی سوچ پہ عمل پیرا ہونے کو ترجیح دیتے ہیں جو انگریز اور اس کی زبان اور لباس پہ کفر کے فتوے لگاتی رہی۔ جس سوچ نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا۔ جو سوچ آج بھی اس بات پہ قائل ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ انگریز کو ڈیل کرنے کی سر سید کی حکمت عملی اس وقت کے مدرسہ کی حکمت عملی سے اچھی اور حکمت امیز تھی۔ ابو الکلام آزاد مولانا مودودی ، مفتی محمود سمیت سب علما کے مقابلے میں جناح کا وژن بہترین تھا۔اس لیے جو سوچ کی آزادی کا حامل نہ ہو وہ ذہنی غلامی کا شکار ہوتا ہے۔ قومیں ترقی کرتی ہوئی غلاموں کی بصیرت پہ بھروسہ نہیں کرتیں۔ ابوبکر صدیق ایم۔ فل پولیٹیکل سائنس

Friday 27 April 2018

مرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔

0 comments
روزانہ پاکستان میں کسی نہ کسی جگہ "حادثاتی " طور پہ آگ لگتی ہے۔ سڑکیں بھی روزانہ کی بنیاد پہ شہریوں کوموت بانٹتی ہیں۔ آگ لگنے کے واقعات اور سڑکوں پہ ہونے والے حادثات کا اگر ڈیٹا نکال کر تجزیہ کیا جائے تو انداز ہ ہو گا کہ ہم دہشت گردی اور سٹریٹ کرائم کی وجہ سے اتنے جانی اور مالی نقصان کے شکار نہیں ہوئے جتنا ان دو وجوہات کی بنا پر ہمیں نقصان سے دوچار ہونا پڑ ا۔ریاست کی ساری توانائی خرچ کر کے ہم دہشت گردی کی روک تھام ممکن بنانے میں 15سال صرف کر بیٹھے مگر دہشت گردی کا مسئلہ اپنی جگہ بدستور قائم ہے۔ کیا ٹریفک حادثات میں مرنے والے پاکستان کے شہری نہیں ۔؟ کیا ان مرنے والوں کے وارث نہیں ہوتے؟ریاست کا ٹریفک حادثات کی طرف آنکھ بند کر لینا کیا ریاستی ذمہ داریوں کی احسن سبکدوشی ہے؟ ٹریفک حادثات کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے ایک جامع کمیشن کی تشکیل ضروری ہے۔ روزانہ سڑکوں پہ سفر کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ زیادہ تر حادثات کی وجہ تیز رفتاری ہے۔ سڑکوں کا کشادہ نہ ہونا، اور بروقت مرمت سے غفلت بھی ان حادثات میں اضافے کا باعث ہیں ۔غیر تربیت یافتہ ڈرائیور ، پارکنگ ایریاکی ناکافی سہولیات اور غیرتربیت یافتہ پولیس کا نظام اس امر کو مزید گھمبیر بنائے دیتا ہے۔ایسی ہی کئی وجوہات ہم سب کے مشاہدے میں روزانہ آتی ہیں لیکن آج کے کالم کا مقصد ٹریفک حادثات کی وجوہات کا پتہ کرنا نہیں بلکہ ان اقدامات کی کھوج ہے جن سے یہ حادثات کم ہو جائیں اور سڑکوں پہ زندگی محفوظ تصور کی جانے لگے۔ 1۔حکومت ٹریفک لائسنس کے عمل کو آسا ن بنائے۔ تحصیل کی سطح پہ ٹریفک لائسنس کے حصول کے مراکز کھولے جائیں ۔ آن لائن رجسڑیشن کی سہولت دینے سے یہ عمل مذید آسان ہو جائے گا۔ لائسنس سے قبل سخت ڈرائیونگ امتحان لیا جائے۔لائسنس کے لیے اہل قرار دینے والے آفیسر کا نام لائسنس پہ درج ہو۔ لائسنس جس نوعیت کی گاڑی کے لیے حاصل کیا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسری گاڑی چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔لائسنس صرف ایک سال کے لیے جاری کیا جائے ۔ ایک سال کے بعد اس کی توسیع دوبارہ کڑے امتحانی عمل کے بعد کی جائے۔اس عمل سے سرکار کے ریوینو میں اضافہ ہو گا اور مہارت یافتہ افراد سڑکوں پہ نظر آئیں گے۔بغیر لائسنس گاڑی چلانا ناممکن بنا دیا جائے۔ 2۔اکثر جو بات دیکھنے میں آتی ہے وہ یہ کہ چلان شدہ افراد چلان کی چٹ اپنے پاس رکھ کر شدید ٹریفک کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایک مرتبہ ٹریفک چلان ہو جانے کے بعد گاڑی اس وقت تک سڑک پہ چلانے کی اجازت نہ دی جائے جب تک وہ چلان کی رقم ادا نہ کر دے۔ اگر کوئی شخص ایک سال میں 4بار ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو اس کا لائسنس 5سال کے لیے منسوخ کر دیا جائے۔ 3۔ٹریفک چلان کی رقم بھی اس قدر کم ہے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ٹریفک چلان کی رقم ڈرائیور کی اوقات سے زیادہ ہونی چاہیے تاکہ قانون کی خلاف ورزی کا کوئی متحمل نہ ہو سکے۔ اگر موٹر سائیکل والے کا چلان 5 ہزار روپے ہو جائے تو وہ ساری زندگی موٹر سائیکل کو اپنی مقررہ حدود کے اندر ہی چلائے گا۔ 4۔ لائسنس کے اجراء کے لیے قومی شناختی کارڈ لازمی ہے۔ اس لیے اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو کسی طور گاڑٰ ی چلانے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ امر ٹریفک حادثات میں یکسر کمی کا سبب بنے گا۔ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد سڑک پہ گاڑی چلاتے پائے جائیں تو گاڑی ضبط کرنے سمیت ان کے والدین کو بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں سنائی جائیں جو اپنی اولاد کے شو ق کی خاطر دوسروں کے گھروں کے چراغ گل کر دیتے ہیں ۔ 5۔ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ڈیوٹی اوقات میں نرمی لائی جائے۔ ان کی مراعات میں اضافہ کیا جائے۔ چلان سے قبل ناقابل تردید ثبوت پیش کرنا ضروری قرار دیا جائے۔ خلاف ورزی کے مرتکب افراد کی غلطی کرتے وقت ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے ۔ ٹریفک حادثے کا سبب اگر کوئی بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے والا شخص ہو تو اس علاقے میں ڈیوٹی پہ معمور ٹریفک پولیس اہلکار کا معاونت ِ جرم کے تحت مقدمے میں فریق مقرر کیا جائے۔ 6۔موٹروے پولیس کی طرز پہ ہائی وئے پولیس کو الگ اور بااختیار ادارہ بنایا جائے ۔ تاکہ سفارش، تعارف اور دھونس دھاندلی کو موثر طریقے سے روکا جا سکے۔جرم کے مرتکب افراد کو موقع پہ جرمانہ ادائیگی کا پابند بنایا جائے۔ اگر کسی جرمانے پہ اعتراض ہو تو اس کو عدالت جانے کا استحقاق حاصل ہو اگر اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو تو عدالت پو لیس اہلکار کی تنخواہ سے اس شخص کو ازالہ کرے۔ ان کے لیے الگ عدالتی نظام متعارف کروایا جائے۔جہاں وکیل کے بغیر حاضر ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 7۔سنگل سڑک کو در رویا میں تبدیل کر دیا جائے جب تک یہ ممکن نہ ہو تب تک سڑک کے درمیان میں ایک دیوار لازمی بنا دی جائے جس کو پھلانگنا ممکن نہ ہو۔ مخصوص جگہوں سے ہی صرف سٹرک کراس کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے علاوہ سڑک پار کرنے والے افراد کو بھی جرمانے اور قید کی سزائیں دی جائیں ۔ 8۔بس سٹاپ کی واضح نشاندہی کی جائے۔ وہاں پہ سرکار مناسب چھاؤں اور بیٹھنے کا بندوبست کرے۔ تمام پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے لازمی ہو کہ وہ صرف سواری کو انہی مخصوص جگہوں سے اٹھائیں اور اتاریں۔بس سٹاپ پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے ۔ یا تعمیر کر کے پرائیویٹ سیکٹر سے اشتہارات کی مد میں کثیر سرمایہ کمایا جا سکتا ہے۔ 9۔سروس روڈ پہ ناجائز تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ اور سائیکل ، موٹر سائیکل ، رکشہ، یا ریڑھی کو پابند کیا جائے کہ وہ سروس روڑ کو استعمال کریں ۔ سڑکوں پہ مختلف گاڑیوں کے لیے مخصوص لائین کے علاوہ گاڑی چلانے بھاری جرمانے عائد کیے جائیں ۔ 10۔ٹرالی ٹریکٹر کو ممنوعہ سواری قراردیا جائے۔سامان کی ترسیل کے لیے بند کنٹینرز کو استعمال کیا جائے۔ کھلے ٹرک بھی اس ضمن میں اہم ہیں ۔ اس کی آرائش کے لیے ان کے ڈیزائن کو جیسا بنایا جاتا ہے وہ قابل غور ہے حکومت کو اس باب میں ہدایات جاری کرنی چاہیے۔ یہ ڈیزائن ناصرف روڑ پہ چلنا خطر ناک ہے بلکہ ہوا کی مزاحمت کے باعث فیول بھی بہت ضائع ہو تا ہے۔ 11۔شہروں میں ٹریفک کے بے ہنگم ہونے کی وجہ ٹریفک کا سڑکوں کی صلاحیت سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کے لیے حکومت کو تجارتی مرزکز شہر سے باہر تجارتی زون بنا کر منتقل کر سکتی ہے۔ جہاں پاکرکنگ کی وسیع اور جدید سہولیات میسر ہوں ۔ 12۔ٹریفک کے حادثات کے جائزے سے یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے ہے اکثر ٹریفک حادثات میں موٹر سائیکل کی تیز رفتاری ملوث ہے۔ کیونکہ موٹر سائیکل کا توازن دو ٹائروں پہ کھڑا ہے اس لیے یہ معمولی سی غفلت سے بھی حادثے کا شکار ہو سکتی ہے۔اس کے لیے موٹر سائیکل کو بائی سائیکل سے ٹرائی سائیکل میں تبدیل کرنے سے اس کی رفتار میں بھی کمی آئے گی اور یہ زگ زیگ طریقے سے چلائی بھی نہیں جا سکے گی۔ ون ویلنگ پہ بھی قابو پا لیا جائے گا اور موٹر سائیکل کے جرائم میں استعمال پہ بھی قابو پانا آسان ہو گا۔ 13۔گاڑی کا maintenance سرٹیفیکٹ کے بغیر روڑ پہ آنے کی اجازت نہ ہو۔سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لیے آزادانہ اور بااختیار میکانزم تشکیل دیا جا سکتا ہے ۔ گاڑیوں کو خرید کے وقت انشورنس کرونا لازمی قرار دیا جائے۔ یہ سرٹیفیکیٹ انشورنس جاری کرنے کے لیے مختلف ورکشاپس کے ماہرین کی خدمات حاصل کریں۔ کیونکہ انشورنس کمپنیاں نقصان کی ذمہ دار ہوں گی اس لیے سرٹیفیکیٹ کے حصول میں سرکاری دو نمبری کی طرز پہ غفلت دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ 14۔چنگ چی رکشہ کو آٹو رکشے کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے۔ وہ نہ صرف ماحول دوست بھی بلکہ متوازن بھی ہے۔ الغرض کئی اور ایسی تجاویز دی جا سکتی ہیں جن سے ہم ریاست پہ آنے والے بے سہارا افراد کے بوجھ کو کم کر سکتے ہیں۔ کئی گھرانوں کے چراغ بجھنے سے بچا سکتے ہیں۔ شہریو ں کی جان اور مال کی حفاظت ریاست کا فرض ہے۔ بہترین حکمت عملی، موثر منصوبہ بندی اور غیر جانبدارنہ عمل درامد ہماری نسلوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ دہشت گردی بھی اسی لیے ملک کاسب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس میں اچانک جان اور مال کانقصان ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے حکومت جتنی سنجیدگی سے حرکت میں آئی ہوئی ہے اتنی ہی توجہ اور متحرک ہونے کی ضرورت اس ضمن میں بھی ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کبھی کبھار انسانی جانوں سے کھیلتی ہے مگر یہ سٹرکوں پہ حکومتی لاپرواہی روز گھروں کو اجاڑ رہی ہے۔ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا ہے اس لیے خدا کے لیے مرنا اتنا آسان نہ ۔ (نوٹ:کالم کا پارٹ –ٹو ان تجاویز پہ مبنی ہو گا جن سے آگ لگنے کے واقعات کی روک تھام میں مدد مل پائے) ابوبکر صدیق ایم ۔ فل ۔ پولیٹیکل سائنس